رسائی کے لنکس

اتر پردیش میں ذبح خانوں پر چھاپے، تین سو سے زائد بند


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انتظامیہ کی اس کارروائی کی زد قانونی ذبح خانوں پر بھی پڑ رہی ہے اور انھیں بھی سیل کیا جا رہا ہے۔ ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ ان میں گائے ذبح کی جاتی ہے۔

سہیل انجم

اترپردیش میں بی جے پی کے سخت گیر اور ہندوتو نواز لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت قائم ہونے کے بعد غیر قانونی ذبح خانے بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب تک چند روز کے اندر تین سو سے زائد ذبح خانے اور میٹ پروسیسنگ ہاؤسوں کو سیل کیا جا چکا ہے۔ جن میں مشینی ذبح خانے بھی شامل ہیں۔

پورے مغربی یو پی میں سیکڑوں ذبح خانے اور میٹ پروسیسنگ یونٹ ہیں جن میں بہت سے قانونی تو بہت سے غیر قانونی ہیں۔ ان میں سے بیشتر بھینس کا گوشت برآمد کرنے کی تجارت میں شامل ہیں۔ انتظامیہ کی اس کارروائی کی زد قانونی سلاٹر ہاؤسوں پر بھی پڑ رہی ہے اور انھیں بھی سیل کیا جا رہا ہے۔ ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ ان میں گائے ذبح کی جاتی ہے۔

میرٹھ، غازی آباد، وارانسی، گورکھپور، لکھنو اور الہ آباد وغیرہ میں انتظامیہ کی اس کارروائی سے اس کاروبار سے منسلک لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ ان دکانوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے جن کے پاس گوشت کے کاروبار کا لائسنس ہے۔

آل انڈیا جمعیة القریش کے صدر سراج الدین قریشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حکومت کے اس قدم کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے لاکھوں افراد کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم جلد ہی یو پی کے وزیر اعلی سے ملاقات کریں گے اور انھیں صورت حال کی نزاکت سے واقف کرائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے وہ لوگوں کو وارننگ دیتی اور اپنے کاروبار ٹھیک کرنے کا وقت دیتی۔ لیکن اس نے اچانک کارروائی شروع کر دی جس سے اس کاروبار سے منسلک لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔

سراج الدین قریشی نے کہا کہ انھوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں یہ اپیل کی گئی ہے کہ جو لوگ قانونی کاروبار کر رہے ہیں ان کو پریشان نہ کیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کارروائی کا غیر سماجی عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

لکھنو کے مشہور ٹنڈے کبابوں پر بھی اس کارروائی کا اثر پڑا ہے اور گوشت کی سپلائی متاثر ہو جانے کی وجہ سے سو سال میں پہلی بار کبابوں کی دکان بند ہو گئی۔ اترپردیش کے مختلف علاقوں میں جانوروں کی مبینہ اسمگلنگ کے الزام میں 43 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور 60 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔

انتظامیہ کی اس کارروائی کے نتیجے میں چڑیا گھروں میں شیروں کی خوراک بھی متاثر ہو گئی ہے۔ انھیں کھانے کے لیے بڑا گوشت دیا جا رہا تھا۔ اب چکن دیا جا رہا ہے جسے بہت سے جانوروں نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG