اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ نے کہا ہے کہ رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی اشیائے ضروری میں مزید اضافہ کردیا اور بظاہر اس اقدام کا مقصد واپسی کے اس عمل کو تیز کرنا ہے۔
عالمی تنظیم نے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ واپسی کے خصوصی پیکج میں کمبل، لحاف، پلاسٹک کی چادریں اور دیگر اشیا شامل کردی گئی ہیں مگراس میں خوراک کا سامان شامل نہیں ہوگا۔
یواین ایچ سی آر نے کہا ہے کہ یہ اشیا افغانستان واپس جانے والے خاندانوں کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے چمکنی، تیمرگرہ اور بلیلی میں قائم خصوصی مراکز میں دی جارہی ہیں اور اضافی پیکج کی پیشکش سے 31 دسمبر 2012ء تک ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، گو کہ افغانوں کی واپسی کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔
علاوہ ازیں رضا کارانہ طور پر وطن واپس جانے والے خاندانوں کو ایک مرتبہ کے لیے مفت سفری سہولت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فی خاندان ڈیڑھ سو امریکی ڈالربھی دیے جا رہے ہیں۔
80 کی دہائی میں افغانستان پر روس کی فوجی یلغار کے بعد لاکھوں افغانوں نے ہجرت کر کے پاکستان اور ایران سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں پناہ لے لی تھی۔ گزشتہ گیارہ سال کے دوران صرف پاکستان سے 30 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین وطن واپس جا چکے ہیں جبکہ 17 لاکھ رجسٹرڈ پناہ گزین اس وقت بھی ملک میں موجود ہیں۔
ان کی واپسی کا عمل حالیہ چند برسوں میں سست روی کا شکار ہوا ہے جس کی بڑی وجہ افغانستان میں امن وامان کے مسائل اور روزگار کے مواقعوں کا فقدان ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ رواں سال افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں تقریباً 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب تک لگ بھگ 40 ہزار افغان وطن واپس جاچکے ہیں۔
عالمی تنظیم اور مقامی حکام کے مطابق درج شدہ پناہ گزینوں کے علاوہ لگ بھگ 20 لاکھ افغان باشندے بھی دستاویزات کے بغیر پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔
حکومت پاکستان نے اندراج شدہ پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے اس سال کے اختتام تک کی مہلت دے رکھی ہے مگر ڈیڈلائن گزرنے کے بعد ان افغانوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح بیان تاحال نہیں دیا ہے۔
عالمی تنظیم نے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ واپسی کے خصوصی پیکج میں کمبل، لحاف، پلاسٹک کی چادریں اور دیگر اشیا شامل کردی گئی ہیں مگراس میں خوراک کا سامان شامل نہیں ہوگا۔
یواین ایچ سی آر نے کہا ہے کہ یہ اشیا افغانستان واپس جانے والے خاندانوں کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے چمکنی، تیمرگرہ اور بلیلی میں قائم خصوصی مراکز میں دی جارہی ہیں اور اضافی پیکج کی پیشکش سے 31 دسمبر 2012ء تک ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، گو کہ افغانوں کی واپسی کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔
علاوہ ازیں رضا کارانہ طور پر وطن واپس جانے والے خاندانوں کو ایک مرتبہ کے لیے مفت سفری سہولت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فی خاندان ڈیڑھ سو امریکی ڈالربھی دیے جا رہے ہیں۔
80 کی دہائی میں افغانستان پر روس کی فوجی یلغار کے بعد لاکھوں افغانوں نے ہجرت کر کے پاکستان اور ایران سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں پناہ لے لی تھی۔ گزشتہ گیارہ سال کے دوران صرف پاکستان سے 30 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین وطن واپس جا چکے ہیں جبکہ 17 لاکھ رجسٹرڈ پناہ گزین اس وقت بھی ملک میں موجود ہیں۔
ان کی واپسی کا عمل حالیہ چند برسوں میں سست روی کا شکار ہوا ہے جس کی بڑی وجہ افغانستان میں امن وامان کے مسائل اور روزگار کے مواقعوں کا فقدان ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ رواں سال افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں تقریباً 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب تک لگ بھگ 40 ہزار افغان وطن واپس جاچکے ہیں۔
عالمی تنظیم اور مقامی حکام کے مطابق درج شدہ پناہ گزینوں کے علاوہ لگ بھگ 20 لاکھ افغان باشندے بھی دستاویزات کے بغیر پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔
حکومت پاکستان نے اندراج شدہ پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے اس سال کے اختتام تک کی مہلت دے رکھی ہے مگر ڈیڈلائن گزرنے کے بعد ان افغانوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح بیان تاحال نہیں دیا ہے۔