رسائی کے لنکس

طالبان خواتین پر دل شکن پابندیاں ختم کریں، افغانستان میں اقوام متحدہ کا امدادی مشن


افغان خواتین کا احتجاج فائل فوٹو
افغان خواتین کا احتجاج فائل فوٹو
  • افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں ملک میں دیرپا امن اور معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اقوام متحدہ
  • افغانستان میں کوئی ستر فیصد لوگ لازمی وسائل سے محروم
  • طالبان سپریم لیڈر خواتین اور لڑکیوں پر عاید پابندیاں ہٹانے کے عالمی مطالبات کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں

آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ لیکن افغانستان سمیت دنیا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں آج کے دور میں بھی خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جن کی وہ حق دار ہیں۔

افغانستان میں خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ان متعدد وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے طالبان حکومت کو اتنا وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک تسلیم نہیں کیا جا سکا ہے۔

اقوام متحدہ اس حوالے سے طالبان پر مسلسل زور دے رہی ہے کہ خواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے پر پابندیاں عائد کر کے وہ اس ملک کو مزید غربت میں دھکیلنے اور عالمی سطح پر مزید تنہا ہو جانے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

جمعے کے روز جب خواتین میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جا رہا تھا، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن ،UNAMA کی سربراہ نے ایک بار پھر طالبان حکومت سے کہا کہ وہ ان تمام پابندیوں کو ختم کرے۔

روزا اوتن بائیووا نے کہا کہ یہ دل شکنی کی بات ہے کہ ہم افغانستان میں اس کے برخلاف دیکھ رہے ہیں۔ خواتین پر تباہ کن اور قصداّ لگائی جانے والی پابندیاں ان خواتین اور لڑکیوں کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اور اس سے پائیدار امن اور خوش حالی کی راہ میں محض رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے لڑکیوں کے ثانوی اسکول اور اس سے آگے کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے گھروں سے باہر خواتین کی نقل و حمل کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ اور زیادہ تر خواتین پر اقوام متحدہ اور دوسرے امدادی گروپوں سمیت سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمت کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یا یو این ڈی پی نے جمعرات کے روز اطلاع دی کہ کوئی 70 فیصد افغانوں کے پاس لازمی بنیادی وسائل موجود نہیں ہیں۔ اور خواتین پر پابندیاں بنیادی حقوق اور معاشی ترقی کی راہ میں بدستور رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ اقتدار پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان معیشت دو فیصد سکڑی ہے اور بے روزگاری دو گنی ہو گئی ہے۔

ایشیا بحرالکاہل کے لیے یو این ڈی پی کی ڈائریکٹر کانی وگنا راجا نے نیو یارک میں رپورٹروں کو بتایا کہ سب سے بڑا چیلنج وہ فرمان ہے جس کے تحت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ چھٹی جماعت سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی سے ایسے ملک میں امدادی کارروائیوں کو نقصان پہنچا ہے جہاں اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ خواتین کو اس سال انسانی امداد کی ضرورت ہو گی۔

جمعے کے روز یو این اے ایم اے نے ایک بیان میں کہا کہ مبینہ طور پر اسلامی لباس کی پابندی نہ کرنے پر افغان حکام کی جانب سے حالیہ کارروائیوں کے سبب یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ من مانی گرفتاریوں کے خوف سے خواتین اور زیادہ الگ تھلگ اور تنہائی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ طالبان کے تنہائی پسند سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ نے گزشتہ ڈھائی برس میں جتنے مذہبی فرمان جاری کیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر میں خواتین کو براہ راست ہدف بنایا گیا ہے۔

امریکی شہر کی پہلی مسلم اور پاکستانی نژاد میئر
please wait

No media source currently available

0:00 0:11:55 0:00

خواتین کے تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے، پارکوں اور جم سمیت عوامی مقامات پر جانے کے حق کو چھین لیا گیا ہے. اس کے علاوہ انہیں کسی محرم، نگہبان یا نگراں کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں ہے۔

اخوندزادہ جو افغان شہر قندھار سے حکومت چلاتے ہیں اپنی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں اور انہیں بدلنے کے بین الاقوامی مطالبے کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

(ایاز گل، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG