یوکرین کے نو منتخب صدر پیٹرو پوروشنکو نے کہا ہے کہ کرائمیا " یوکرین کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔"
ہفتہ کو پوروشنکو نے یوکرین کے پانچویں صدر کی حیثیت سے دارالحکومت کیئف میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر قانون سازوں کے علاوہ نائب امریکی صدر جو بائیڈن سمیت غیر ملکی رہنما اور اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ وہ کرائمیا کو روس میں شامل کیے جانے کے اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔
ماسکو نے مارچ میں بحیرہ اسود کے جزیرہ نما میں اپنی فوجیں بھیج کر یہاں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
نئے صدر نے ملک کے مشرقی علاقے میں "ہم وطنوں" سے مذاکرات کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ ان علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسند یوکرین کی فورسز کے خلاف مسلح مزاحمت کرتے آرہے ہیں۔
48 سالہ ارب پتی صنعتکار پوروشنکو یوکرین کی آزادی کے بعد پانچویں صدر ہیں۔ انہوں نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مشرق و مغرب میں تقسیم کو ختم کریں گے جس کی وجہ سے ملک اپنی بقا کے لیے جنگ میں دھکیل دیا گیا۔
مغربی حکومتیں اور روس کے درمیان یوکرین کے مستقبل پر جغرافیائی سیاسی جنگ جھڑی ہوئی ہے اور یہ تمام صورتحال کو جائزہ لے رہے ہوں گے کہ یوکرین کے نئے صدر مشرقی حصے میں علیحدگی کی تحریک سے کس طرح نمٹتے ہیں۔
پوروشنکو نے کہا کہ وہ یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں اور انہیں یوکرین میں استحکام لانے کے لیے حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل ہوئی جب وہ رواں ہفتے صدر براک اوباما اور یورپی رہنماؤں سے ملے۔
ہفتہ کو پوروشنکو نے یوکرین کے پانچویں صدر کی حیثیت سے دارالحکومت کیئف میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر قانون سازوں کے علاوہ نائب امریکی صدر جو بائیڈن سمیت غیر ملکی رہنما اور اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ وہ کرائمیا کو روس میں شامل کیے جانے کے اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔
ماسکو نے مارچ میں بحیرہ اسود کے جزیرہ نما میں اپنی فوجیں بھیج کر یہاں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
نئے صدر نے ملک کے مشرقی علاقے میں "ہم وطنوں" سے مذاکرات کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ ان علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسند یوکرین کی فورسز کے خلاف مسلح مزاحمت کرتے آرہے ہیں۔
48 سالہ ارب پتی صنعتکار پوروشنکو یوکرین کی آزادی کے بعد پانچویں صدر ہیں۔ انہوں نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مشرق و مغرب میں تقسیم کو ختم کریں گے جس کی وجہ سے ملک اپنی بقا کے لیے جنگ میں دھکیل دیا گیا۔
مغربی حکومتیں اور روس کے درمیان یوکرین کے مستقبل پر جغرافیائی سیاسی جنگ جھڑی ہوئی ہے اور یہ تمام صورتحال کو جائزہ لے رہے ہوں گے کہ یوکرین کے نئے صدر مشرقی حصے میں علیحدگی کی تحریک سے کس طرح نمٹتے ہیں۔
پوروشنکو نے کہا کہ وہ یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں اور انہیں یوکرین میں استحکام لانے کے لیے حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل ہوئی جب وہ رواں ہفتے صدر براک اوباما اور یورپی رہنماؤں سے ملے۔