بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کو دو ماہ مکمل ہوگئے ہیں جبکہ آٹھ ہفتے گزرنے کے باوجود کشمیر کے رہنے والے کرفیو سمیت دیگر پابندیوں کا شکار ہیں۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بزرگوں اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد کو مبینہ طور پر گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ انتظامیہ کی کوشش کے باوجود وادی کے تعلیمی اداروں میں تدریس کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون پر بندش کی وجہ سے شہری محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق جمعرات کے روز 100 سے زائد صحافیوں نے سرینگر پریس کلب کے احاطے میں کتبے اٹھا کر احتجاج کیا۔
اس موقع پر صحافیوں کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کی منسوخی کے دو ماہ بعد بھی مسلط کی گئی حکومتی پابندیوں کی وجہ سے انہیں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ پانچ اگست کو کیے گئے بھارتی اقدام کی وجہ سے کشمیر میں اب بھی موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بند ہے جبکہ وادی کے کچھ علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد ہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے صحافیوں کو میڈیا سینٹر میں انٹرنیٹ سروس فراہم کی گئی ہے لیکن صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ سہولیات ناکافی ہیں۔
کشمیر پریس کلب کے جنرل سیکریٹری اشفاق منتر کا کہنا ہے کہ 300 کے قریب صحافی انتظامیہ کی طرف فراہم کردہ انٹرنیٹ سروس کو روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ جس کے دوران صحافیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کی رہائی
مقامی میڈیا کے مطابق جمعرات کے روز سے انتظامیہ کی طرف سے پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنماؤں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
بھارتی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ کے مطابق ایک درجن سے زائد اپوزیشن رہنماؤں کی نقل و حمل پر پابندی 24 اکتوبر کو ہونے والے مقامی انتخابات کی وجہ سے اٹھائی گئی ہے۔
چین کے ساتھ سرحدی علاقے ‘لداخ’ میں بڑھتی کشیدگی
جموں و کشمیر اور لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد 31 اکتوبر سے نئی دہلی لداخ کا انتظام سنبھال رہا ہے۔
جس کی وجہ سے بھارت اور چین کے درمیان سرحدی علاقے ‘لداخ’ میں کشیدگی بڑھنے لگی ہے۔
کشمیر کے خصوصی درجے سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدام کے بعد علاقے میں اضافی فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں جبکہ موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
چین کے ساتھ بارڈر ہونے کی وجہ سے سرحدی علاقے لداخ میں کئی سالوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے جو کہ دو حصوں لہہ اور کارگل پر مشتمل ہے۔
لہہ میں بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے جبکہ کارگل میں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں۔
بھارتی اقدام کی وجہ سے دونوں علاقوں لہہ اور کارگل میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
5 اگست کو جب بھارتی حکومت کی طرف سے لداخ کو وفاق کے زیر انتظام کیے جانے کا اعلان کیا گیا تو لہہ کی بدھ مت برادری نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا جو کہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے کشمیر سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
بدھ مت برادری کے رہنماؤں کو شکایت رہی ہے کہ دہلی کی طرف سے جموں و کشمیر ریاست کو دیے جانے والے فنڈز اور نوکریوں پر مسلمان قبضہ کر لیتے ہیں۔
31 اکتوبر کو دہلی کے انتظام سنبھالنے کے بعد لہہ میں آباد بدھ مت آبادی کو تشویش لاحق ہے کہ بھارت کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ان کے علاقے میں زمین خرید سکیں گے۔ جس سے متعلق انہیں خدشات لاحق ہیں۔
یاد رہے کہ لداخ کے کچھ علاقے بھارت اور چین کے درمیان متنازع ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان 1962 میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔ جس میں لداخ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور اس علاقے میں تعینات چین اور بھارت کی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی اکثر ہوتی رہتی ہیں۔
دوسری طرف کارگل میں آباد مسلمانوں کی طرف سے بھارتی اقدام کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہ کشمیر کے ساتھ ہی جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ نے کارگل میں درجن کے قریب لوگوں کے انٹرویوز کیے۔ جنہیں مقامی عہدیداروں کی طرف سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بغیر ٹرائل کے دو سال تک قید کیے جانے کی دھمکیاں دی گئیں۔