ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ اگر کردوں کی وائی پی جی ملیشیا نے ترکی اور روس کے درمیان اس ہفتے طے ہونے والے معاہدے کے مطابق حتمی تاریخ تک شام کی شمالی سرحد کے علاقوں کو خالی نہ کیا تو اس علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کرانے کے لیے فوج استعمال کی جائے گی۔
سوچی میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور ترک صدر اردوان کے درمیان معاہدے میں طے کردہ ڈیڈ لائن منگل کو ختم ہو رہی ہے۔ روس نے کہا ہے کہ اس کی ملٹری پولیس اور شام کے بارڈر سیکورٹی دستے کردوں کو سرحد سے 30 کلومیٹر تک کا علاقہ خالی کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
ترکی وائی پی جی کو ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتا ہے اور داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کی اس کرد ملیشیا کی حمایت کرنے پر نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ یہ کرد جنگجو سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا حصہ ہیں۔
ترکی شام کی شمالی سرحد کے ساتھ ایک محٖفوظ علاقہ قائم کرنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنے ملک میں پناہ گزین 35 لاکھ شامی باشندوں کو بسانا چاہتا ہے۔
ترک رہنما نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہمیں دس سے 20 لاکھ شامی باشندوں کی پہلے مرحلے میں اپنے وطن واپسی کے منصوبوں کی حمایت نہ ملی تو ہم اپنے دروازے کھول دیں گے اور پناہ گزینوں کو یورپ جانے کی اجازت دے دیں گے۔
دوسری جانب، روس کی وزارت دفاع نے ہفتے کے روز مشرقی شام میں امریکی فوجی دستے برقرار رکھنے کے منصوبوں کی مخالفت کی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ شام میں موجود تیل کی تنصیبات کو داعش کے ہاتھ لگنے سے بچانے کے لیے اپنے فوجی وہاں رکھنا چاہتا ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے جمعے کے روز کہا تھا کہ واشنگٹن شام میں تیل کی تنصیبات کے تحفظ کے لیے اپنی بکتر بند گاڑیاں اور فوجی وہاں بھیجے گا تاکہ انہیں داعش کے جنگجو ان پر قابض نہ ہو سکیں۔
روس کی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی یا امریکی قانون واشنگٹن کو شام میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے کی اجازت نہیں دیتا اور اس اقدام کا تعلق خطے کی سیکورٹی کے حقیقی خدشات سے نہیں ہے۔