امریکہ کی کئی وفاقی اور ریاستی عدالتوں کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے مقدمات خارج کیے جانے کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے ریاست پینسلوینیا کے نتائج کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک اور پٹیشن دائر کر دی ہے۔
پیٹیشن میں ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پینسلوینیا کی جنرل اسمبلی کو اجازت دے کے وہ خود ریاست کے الیکٹرز کا انتخاب کرے۔
اگرچہ بہت کم امکان ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت میں پینسلوینیا میں ووٹر فراڈ کے الزامات پر انتخابات کے نتائج مسترد کر دیے جائیں گے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو ملکی سطح پر انتخابات کے نتائج پر فرق نہیں پڑے گا اور نو منتخب صدر بائیڈن پینسلوینیا میں جیت کے بغیر بھی فاتح ہی رہیں گے۔
الیکٹورل کالج میں بائیڈن کی ٹرمپ پر برتری اس ریاست کے کل الیکٹورل ووٹوں کے فرق سے زیادہ ہے۔
ٹرمپ کے وکیل روڈی جولیانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی پیٹیشن میں ان کے بقول تمام مناسب اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے بشمول جو بائیڈن کے حامی الیکٹرز کی تقرری روکتے ہوئے پینسلوینیا کی جنرل اسمبلی کو اختیار دینا کہ وہ ان کے متبادل منتخب کر لے۔
جولیانی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ اس پیٹیشن کی جلد سماعت کرے تاکہ چھ جنوری کو کانگریس کے اس اجلاس سے پہلے فیصلہ دے سکے جس میں الیکٹرز کے ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔
بائیڈن کو اس اعتبار سے ٹرمپ کے 232 الیکٹرز کے مقابلے میں 306 الیکٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن دوسری طرف جج حضرات کی آٹھ جنوری سے پہلے ملاقات طے نہیں ہے۔ یعنی ان کی ملاقات کانگریس میں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کے دو دن بعد ہو گی۔
پینسلوینیا میں گزشتہ ماہ تین ہفتوں پر محیط ووٹوں کی گنتی کے عمل اور متعدد ناکام قانونی چیلنجز کے بعد جو بائیڈن ریاست سے 20 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور ان کے حامیوں نے اب تک عدالتوں میں کم و بیش 50 درخواستیں داخل کی ہیں جن میں ووٹنگ کے عمل میں وسیع پیمانے ہر دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ٹرمپ کی اپیلیں ان عدالتوں سے مسترد ہوئی ہیں جہاں بینچ میں دونوں سیاسی جماعتوں کے خیالات سے ہم آہنگی رکھنے والے حتٰی کہ صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ جج بھی شامل تھے۔
اسی طرح صدر کو الیکشن کے بعد کی صورتِ حال پر قدامت پسند بعض ری پبلکنز کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی طرح سپریم کورٹ بھی دو درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرنے سے انکار کر چکی ہے۔ ان فیصلوں پر صدر ٹرمپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
نئی پیٹیشن میں ٹرمپ کی مہم اور ان کے حامی چوتھی مرتبہ پینسلوینیا کو شامل کرتے ہوئے سپریم کورٹ گئے ہیں۔
اس پیٹیشن کا مقصد کم از کم اس ریاست میں بائیڈن کی فتح کو کالعدم قرار دلوانا اور ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کے بارے میں عدالتوں کے فیصلوں کو پلٹنا ہے۔
پینسلوینیا میں تقریباً 10 ہزار ووٹ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد موصول ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت تک ڈیڈلائن سے متعلق ریاست کی عدالت کا آرڈر موصول نہیں ہوا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ اعلی ترین عدالت ان ووٹوں کے شمار کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کیا فیصلہ دیتی ہے؟