امریکی ریاست ہوائی کے ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کیے گئے ترمیم شدہ سفری پابندی کے حکم نامے پر اس کے لاگو ہونے سے صرف چند گھنٹے پہلے پابندی عائد کر دی ہے۔
جج ڈیرک واٹسن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ریاست کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے دیکھایا کہ”اگر اس حکم نامے کو نہیں روکا جاتا تو ناقابلِ تلافی چوٹ لگے گی۔”
ہوائی کے وکلا کا کہنا تھا کہ 6 مسلم اکثریتی ملکوں کے مسافروں پر ٹرمپ کے عارضی سفری پابندی کے حکم نامے سے سیاحت کو نقصان ہو گا جس پر ہوائی کی معیشت کا زیادہ تر انحصار ہے۔ ریاست نے یہ دلیل بھی دی کہ اس کے مسلمان رہائشیوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا کیونکہ ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن سے ان کے رشتہ دار انہیں ملنے کے لیے نہیں آ سکیں گے۔
6 دیگر ریاستیں سفری پابندی کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کر رہی ہیں جن میں ریاست میری لینڈ بھی شامل ہے جس کے وکلا نے کہا تھاکہ پابندی ابھی بھی مسلمانوں پر ہے۔
امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے اٹارنی نے کہا تھا کہ ترمیم شدہ حکم نامے میں “مذہب کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ یہ کسی مذہبی تفریق کی طرف توجہ نہیں دلاتا۔”
یہ دوسری دفعہ ہے کہ ایک وفاقی جج نے ٹرمپ کے سفری پابندی کے حکم نامے کو روک دیا ہے۔
اس سے پہلے سین فرانسسکو میں ایک اپیل کورٹ نے اس حکم نامے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا جب اس نے ایک وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
ٹرمپ نے ترمیم شدہ حکم نامے سے عراق کو نکال دیا تھا جو 22 جنوری کو جاری کیے جانے والے پہلے حکم نامے میں شامل تھا۔ اس حکم نامے کے بعد امریکی ائر پورٹوں پر ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی کیونکہ امیگریشن افسران کو یہ معلوم نہیں تھا کن لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔