امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن کو صدارتی معافی دینے کا اعلان کیا ہے۔
تجزیہ کار، فلن کو معاف کرنے کے اقدام کو صدر ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں اُن کے قیام کے آخری دنوں میں اس تفتیش کو براہ راست نشانہ بنانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ "یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس بات کا اعلان کروں کہ جنرل مائیکل ٹی فلن کو مکمل معافی دی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے بعد فلن اور اُن کی فیملی کے لیے تھینکس گیونگ کا تہوار اس بار شان دار ہو گا۔"
فلن صدارتی معافی حاصل کرنے والے صدر ٹرمپ کے دوسرے ساتھی ہیں جنہیں روسی مداخلت کی تفتیش کے دوران مجرم ٹھیرایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ٹرمپ نے اپنے دیرینہ ساتھی راجر اسٹون کو جیل جانے سے چند دن پہلے ہی صدارتی معافی دی تھی۔
امریکی صدر کی جانب سے معافی دیے جانے کے بعد فلن پر چلنے والا کریمنل کیس ختم ہو جائے گا۔ ایک وفاقی جج امریکی محکمۂ انصاف کی اس درخواست کو بھی سن رہا تھا جس میں فلن کے خلاف قانونی چارہ جوئی روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ حالاں کہ فلن نے اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل روسی سفیر سے ملاقات کے بارے میں ایف بی آئی سے جھوٹ بولا تھا۔
امریکی قانون صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مواخذے کے علاوہ امریکہ کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے قریبی ساتھیوں کو نوازنے کے لیے اس اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی محکمۂ انصاف نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری مئی 2017 میں رابرٹ ملر کو سونپی تھی۔ بعد ازاں ملر تحقیقات کا دائرہ صدر ٹرمپ اور اُن کے مشیروں کی جانب سے تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مبینہ الزامات تک وسیع ہو گیا تھا۔
ملر نے اپنی رپورٹ میں صدر کو انصاف اور تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے صدر اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش نہیں کی تھی بلکہ یہ معاملہ محکمۂ انصاف پر چھوڑ دیا تھا۔