امریکی کانگریس کے اراکین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اُن کے اس بیان پر ہدف تنقید بنا رہے ہیں کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہے گا باوجود اس بات کے کہ اُنہوں نے خود یہ تسلیم کیا تھا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے سابق کالم نگار اور معروف صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کے بارے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پہلے سے علم تھا۔
امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اراکین کانگریس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو معاشی مفاد کیلئے اپنی روایتی اقدار کو ترک نہیں کرنا چاہئیے۔
2 اکتوبر کو صحافی اور امریکی رہائشی جمال خشوگی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ہلاکت کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے۔
صدر ٹرمپ سے منگل کے روز سی آئی اے کی اس رپورٹ کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں وثوق سے کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ہی خشوگی کے قتل کا حکم دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ شاید اُنہوں نے ایسا کیا ہو یا پھر شاید نہ کیا ہو۔ اگر آپ ایران کی طرف دیکھیں کہ اُس نے کیا کیا ہے، اُنہوں نے بہت برا کام کیا۔ اگر آپ دیکھیں کہ شام میں صدر بشارالاسد نے کیا کیا، اُنہوں نے لاکھوں افراد کو ہلاک کروا دیا۔ ہم سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اُن کے ساتھ ہی رہیں گے‘‘۔
امریکہ میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے اراکین نے صدر ٹرمپ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت جاری رکھنے پر شدید تنقید کی ہے۔ سینیٹ میں فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین باب کارکر کا کہنا ہے کہ یہ ایک نازک صورت حال ہے جب ایک طرف ہمارا دیرینہ اتحادی ہو جس کے ساتھ بہت سالوں سے ہمارے قریبی تعلقات ہیں۔ دوسری جانب ولی عہد ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے ہی صحافی کے قتل کا حکم دیا۔ اس بارے میں جو کہا گیا، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے کوئی پریس ریلیز لکھی جا رہی ہو نا کہ امریکہ کی طرف سے کچھ کہا جا رہا ہو۔
رپبلکن سینیٹر لِنڈسی گراہم نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ کو دنیا پھر میں ایسی چیزوں کا سامنا ہے جو مکمل طور پر درست نہیں ہیں۔ تاہم، اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھتے ہیں تو ہم اپنے سب سے قیمتی اثاثے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اُنہوں نے بدھ کے روز ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ سعودی عرب نے انسانی حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں کئی قدم اُٹھائے ہیں۔
ایک صحافی نے منگل کے روز اُن سے سوال کیا کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے ’امریکہ پہلے‘ کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے تو اُنہوں نے کچھ یوں جواب دیا، ’’آپ کے سوال کے بہترین جواب کے طور پر اُن اقدامات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جو ہم پہلے ہی اُٹھا چکے ہیں۔ جمال خشوگی کی موت اور قتل کے حوالے سے حقائق جاننے کیلئے کافی کچھ کیا جا چکا ہے۔
تاہم، ولسن سینٹر کے تجزیہ کار ایرن ڈیوڈ ملر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ انسانی حقوق کی ترجیحات کا تعین اپنی صوابدید پر کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سعودی عرب ایران کا راستہ روکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کوششوں کا سہولت کار بنے۔ ہم محمد بن سلمان کی اصلاحات پر تنقید کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم یہ بھول جانا چاہتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں اور جمال خشوگی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
ملر اس سلسلے میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ امریکی تعلقات کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تعلقات روسی حکومت کی جانب سے صحافیوں، سیاسی مخالفین اور سابق جاسوسوں کے مبینہ قتل کے باوجود جاری ہیں۔