اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے منگل کے روز نکاراگوا کی وہ درخواست مسترد کر دی جو اسرائیل کو جرمنی کی جانب سے دی جانے والی فوجی امداد روکنے کا ہنگامی حکم دینے سے متعلق تھی۔
عدالت نے کہا کہ نکاراگوا کی طرف سے پیش کردہ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ عدالت کو ہنگامی اقدامات جاری کرنے کی ضرورت ہو۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے جرمنی کی طرف سے کیس کو مکمل طور پر خارج کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
نکاراگوا کا الزام تھا کہ جرمنی غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کر کے 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
نیدرلینڈز میں نکاراگوا کے سفیر کارلوس ہوزے ارگیلو گومیز نے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا، "جرمنی نسل کشی کو روکنے یا بین الاقوامی انسانی قانون کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔"
جرمنی کا، جو اسرائیل کا دیرینہ حامی ہے، استدلال تھا کہ حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے جرمنی نے اسرائیل کو بہت کم ہتھیار برآمد کیے ہیں۔
اسرائیل، جو اس مقدمے کا فریق نہیں ہے، اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کاروائی کر رہا ہے۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے اپنے حملے کے دوران تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 240 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے اب بھی ایک سو سے زیادہ اس کے پاس زیر حراست ہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد سے غزہ میں 34,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی عدالت میں اس سے قبل اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کا مقدمہ
جنوبی افریقہ نے گزشتہ دسمبر میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے اسرائیل کے خلاف ہنگامی اقدامات کرنے کو کہا تھا۔
اس نے الزام عائد کیا تھا کہ تل ابیب فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کا ذمہ دار ہے۔
اسرائیل ایسے الزامات کی سختی سے تردید کر تا ہے۔
اسرائیل کے قانونی مشیر ٹال بیکر نے اس مقدمے میں عالمی عدالت کے ججوں کو بتایا تھا کہ اسرائیل ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کا نہ تو اس نے آغاز کیا تھا اور نہ ہی وہ کرنا چاہتا تھا۔
اس مقدمے میں عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کو غزہ میں ہلاکتیں روکنے کے لیے اقدامات کا حکم دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی عالمی فوجداری عدالت کی تحقیقات کی مخالفت، اسرائیل کو گرفتاری کے وارنٹس کا خدشہ
امریکہ نے پیر کو کہا ہے کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل کے بارے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی تحقیقات سے متعلق ان رپورٹوں کی مخالفت کی ہے جن پر اسرائیلی حکام کو خدشہ ہے کہ ہیگ میں قائم ٹریبونل جلد ہی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر سکتا ہے۔
مبینہ طور پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اختتام ہفتہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک فون کال میں یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرن جین پیئر نے بریفنگ میں کہا، "ہم آئی سی سی کی تحقیقات کے بارے میں واضح ہیں کہ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے، ہم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں ہے۔"
نیویارک ٹائمز نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ نیتن یاہو خود بھی ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں، جن پر الزامات عائد کیے جائیں گے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالت حماس کے رہنماؤں کے خلاف الزامات کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔
جین پیئر نے نیوز آؤٹ لیٹ Axios کی اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی کہ نیتن یاہو نے اتوار کو اپنی کال میں بائیڈن سے کہا تھا کہ وہ عدالت کو اسرائیلی حکام کے وارنٹ بھیجنے سے روکے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی یہ انکوائری 2021 میں شروع کی گئی تھی۔ اس میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے 2014 میں ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کا احاطہ کیا گیا ہے۔
وی اے او کی اس رپورٹ میں کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم