صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز ایران کی القدس فورس کے سرکردہ کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر پہلی مرتبہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فضائی حملہ، جس میں قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے، بہت عرصہ پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔صدر ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ اگر اس کی جانب سےامریکیوں کو نشانہ بنانا بند نہ کیا گیا، تو ایسے مزید حملے ہو سکتے ہیں۔
بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب امریکی حملے میں سلیمانی کی ہلاکت کی امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے تصدیق کے بعد صدر ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ 'مار آ لاگو' پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ اقدام جنگ روکنے کے لئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ایران کی حکومت کے جارحانہ اقدامات ، خصوصا اپنے ہمسایہ ملکوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پراکسی جنگجووں کا استعمال، اب ختم ہونا چاہئے۔
صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کو ہزاروں امریکی، عراقی اور ایرانی شہریوں کی اموات کا ذمہ دار قرار دیا، اور کہا کہ ایرانی جنرل نے 'معصوم شہریوں کی ہلاکت کو اپنا مریضانہ جنون بنا لیا تھا'۔ اور یہ کہ وہ 'دہشت گردی کا ایک ایسا نیٹ ورک چلانے کے ذمہ دار تھے، جس کی رسائی مشرق وسطی، یورپ اور امریکہ تک تھی'۔
اس سے قبل امریکی میزائل حملے میں ایران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔
امریکہ نے جمعے کو علی الصبح بغداد ایئر پورٹ کے قریب اس وقت میزائل داغا تھا جب جنرل سلیمانی ایران نواز عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ڈپٹی چیف ابو مہدی المھندس کے ہمراہ کار میں سوار تھے۔
امریکی کارروائی میں دونوں کمانڈر مارے گئے۔ اس کارروائی کے چند گھنٹے بعد ایران کے سرکاری ٹی وی نے بیان جاری کیا کہ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
جنرل قاسم کی ہلاکت پر ایران نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر امریکی فوج نے فیصلہ کن دفاعی کارروائی کی ہے جس میں ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی مارے گئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے بیرون ملک موجود امریکی اہلکاروں کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں امریکی پرچم پوسٹ کیا جس کی انہوں نے کوئی مزید وضاحت نہیں کی۔
امریکی راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے جنرل سلیمانی ایران کے پاسداران انقلاب کی بریگیڈ 'القدس فورس' کے کمانڈر تھے۔ جنرل سلیمانی ایران کے بیرونِ ملک آپریشن کے نگران تھے اور وہ عراق میں بحرانی کیفیت کی صورت میں اکثر بغداد کا دورہ کرتے تھے۔
اس سے قبل عراق میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران بھی قاسم سلیمانی عراق میں ہی موجود تھے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی عراق اور خطے کے دیگر ملکوں میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں اور امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قاسم سلیمانی کے خلاف کارروائی اپنے دفاع میں کی ہے۔
ایران کا ردِ عمل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل قاسم کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ جنرل قاسم کی ہلاکت سے اُن کا مشن نہیں رکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل قاسم عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت تھے۔ ان کی ہلاکت یقینی طور پر ہمارے لیے افسوس ناک ہے لیکن ان کے قاتلوں اور مجرموں کے خلاف ہم ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو امریکہ کی انتہائی خطرناک اور فاش غلطی قرار دیا ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی پر حملہ کر کے عالمی دہشت گردی کی اور اسے اپنی مہم جوئی کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ایسے میں جب جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر افغانستان کا سرکاری رد عمل ابھی سامنے نہیں آیا، ماہرین اور سابق اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے اس معاملے پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ ایران امریکہ سے بدلہ لینے کے لیے لڑائی کے شکار افغانستان کے تنازع کو بھڑکا سکتا ہے۔
سابق افغان جنرل، عتیق اللہ امرخیل نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کو بتایا کہ امریکہ سے بدلہ لینے کے لیے ممکن ہے ایران افغان طالبان کی حمایت کرے۔
سابق صدر حامد کرزئی کے چیف اسٹاف نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ جنرل قاسم کی ہلاکت کا امن پر منفی اثر پڑے گا۔
پاکستان میں تعینات رہنے والے سابق افغان سفیر، عمر زخیوال نے کہا ہے کہ افغان امن کے حوالے سے علاقائی ماحول پہلے ہی بہت پریشان کن ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ہمسائے میں بڑھتا ہوا شدید تناؤ، جس کا براہ راست ہم سے تعلق نہ بھی ہو، اس کے نتیجے میں علاقائی تعاون تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ان معاملات پر افغان کسی طور پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ لیکن امن کے معاملے پر قومی وحدت اور کثرت رائے کا مظاہرہ کرکے ہم اس بگڑتے ہوئے علاقائی ماحول کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں‘‘۔
افغان وزارت دفاع کے سابق مملکتی وزیر، تمیم عاصی نے بھی اس معاملےپر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایران کی القدس فورس کے کمانڈر، قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے نتیجے میں افغان لڑائی اور امن پر کلیدی اثرات مرتب ہوں گے؛ یا تو اس سے افغان امن عمل کو بہت بڑا نقصان ہوگا یا پھر کم از کم ایران کی پشت پناہی والے طالبان اب امن کہ راہ ترک کرکے لڑائی میں شدت اختیار کریں گے‘‘۔
تاہم، متعدد افغانوں نے حملے پر خوشی کا اظہار کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے ہزاروں افغانوں کو شام کی لڑائی میں جھونک دیا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جنرل سلیمانی اور ان کی 'القدس فورس' سیکڑوں امریکیوں اور اتحادیوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران اتحادیوں کی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جس میں 27 دسمبر کو ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر رواں ہفتے ہونے والے حملے کی منظوری بھی جنرل سلیمانی نے دی تھی۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق جمعے کو کی جانے والی کارروائی کا مقصد ایران کے مستقبل میں ممکنہ حملوں کو روکنا ہے۔ امریکہ اپنے شہریوں اور مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں جہاں ضرورت پڑے گی وہاں مناسب کارروائی کرے گا۔
یاد رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب عراق میں امریکہ کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور حال ہی میں مشتعل ہجوم نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا تھا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد عراق کی سرزمین پر خانہ جنگی کے خدشے کا امکان ہے۔