سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپکسے اور وزیرِاعظم رنیل وکرما سنگھے کے مستعفی ہونے کے فیصلےکے بعد اتوار کو ملک کی اپوزیشن جماعتیں نئی حکومت پر اتفاقِ رائے کے لیے ملاقات کریں گی۔
سری لنکا کے صدر کی جانب سے استعفے کا فیصلہ اشیائے ضروریہ کی قلت اور مہنگائی کے مارے ہزاروں مظاہرین کی جانب سے ہفتے کو ان کی رہائش گاہ پر دھاوے اور دارالحکومت کولمبو میں وزیرِاعظم کے گھر کو نذر آتش کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی انجانا پسریچا کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی اسپیکر مہندا یاپے ابے وردنا نے ہفتے کو رات گئے کہا کہ صدر راجا پکسے نے انہیں کہا ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کردیں کہ وہ 13 جولائی کو مستعفی ہوجائیں گے تاکہ انتقال اقتدارِ کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ صدر کے استعفے کے فیصلےکے بعد مزید رکاوٹوں کی ضرورت نہیں ہے اور وہ تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پُر امن رہیں۔
صدر کے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ وزیرِاعظم رنیل وکرما سنگھے کی جانب سے عہدہ چھوڑنے اور تمام جماعتوں کی حکومت کے لیے راستہ بنانے کی پیش کش کے بعد سامنے آیا۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق وزیرِاعظم رنیل وکرما سنگھے کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی وہ دفتر چھوڑ دیں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن قانون ساز ایم اے سمانتھرن کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں اکثریت دکھانے کے لیے درکار 113 اراکین آسانی سے پورے کرسکتی ہیں۔ جس کے بعد وہ صدر راجاپکسے سے نئی حکومت کے قیام اور پھر مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اتوار کو تمام جماعتیں اتفاقِ رائے پر پہنچ جائیں گی۔
سری لنکا کے آئین کے مطابق اگر صدر اور وزیرِاعظم دونوں استعفیٰ دے دیں تو اسپیکر مہندا یاپے ابے وردنا عارضی طور پر صدر کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔
واضح رہے کہ بحر ہند میں واقع 2 کروڑ 20 لاکھ آبادی والے جزیرے سری لنکا کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ملک خوراک، ایندھن اور ادویات کی کمی کا شکار ہے۔ رواں سال جون میں مہنگائی کی شرح 54.6 فی صد تھی جب کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 70 فی صد ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ مہینوں سے بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنے والے سری لنکا میں ہفتے کو ہزاروں مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا تھا۔ مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مظاہرین نے دونوں رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر رات گزاری اورکہا کہ وہ تب تک وہیں رہیں گےجب تک وہ مستعفیٰ نہیں ہوتے۔
صدارتی محل پر دھاوے کےاس واقعے کی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی فوٹیج میں سینکڑوں افراد کو صدر راجا پکسے کے محل میں نعرے لگاتے، راہداریوں میں گھومتے اور کمروں میں بیٹھا دیکھا گیا جب کہ کچھ مظاہرین سوئمنگ پول میں نہاتے ہوئے بھی دیکھے گئے تھے۔
مظاہرین صدر کے دفتر میں بھی داخل ہوئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے کہ ''تمہارا خیال تھا تم ہمیں روک سکتے ہو، لیکن ہم یہاں ہیں۔''
اس احتجاج سے قبل ہی فوج نے راجاپکسے کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا تھا۔ سری لنکن صدر کو ملک کے بدترین معاشی بحران کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اور کئی مہینوں سے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
وکرماسنگھے سابق وزیرِاعظم مہندا راجاپکسے کے مستعفی ہونے کے بعد مئی میں ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ البتہ انہیں بھی عوام کے غصے کا سامنا تھا کیوں کہ وہ راجا پکسے برادران کے قریبی سمجھے جاتے تھے اور ان پر ان دونوں کو تحفظ دینے کا الزام تھا۔
مظاہرین رات گئے وزیرِاعظم کی نجی رہائش گاہ پہنچے اور اسے نذرِآتش کردیا۔ رپورٹس کے مطابق احتجاج کا دائرہ بڑھنے کے ساتھ ہی انہیں محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔