رسائی کے لنکس

مڈ ٹرم الیکشن: کیا امریکہ میں اردو اورعربی میں بھی بیلٹ پیپر شائع ہوتے ہیں؟


آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں تقریباً آٹھ کروڑ رائے دہندگان ایسے ہیں جو انگریزی کے ساتھ کسی اور زبان میں بھی بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے اہل ہیں۔(فائل فوٹو)
آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں تقریباً آٹھ کروڑ رائے دہندگان ایسے ہیں جو انگریزی کے ساتھ کسی اور زبان میں بھی بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے اہل ہیں۔(فائل فوٹو)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ میں ان شہریوں کے لیے جنہیں انگریزی نہ آتی ہو، دیگر زبانوں میں بیلٹ پیپر حاصل کرنے کی سہولت بھی دستیاب ہے تاکہ کوئی بھی شخص صرف زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہ رہ جائے۔

امریکہ کو تارکینِ وطن کا ملک کہا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آنے والے امریکی سماج کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی زبان و ثقافت بھی یہاں رچ بس گئی ہے۔ اس کی جھلک امریکہ کے قوانین اور سیاست میں بھی نظر آتی ہے۔ ووٹنگ کے لیے یہاں بسنے والے مختلف گروہوں کو ان کی زبان میں معلومات اور بیلٹ پیپر کی فراہمی اس کی ایک مثال ہے۔

آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں تقریباً آٹھ کروڑ رائے دہندگان ایسے ہیں جو انگریزی کے ساتھ کسی اور زبان میں بھی بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ اس سے قبل 2020 کے صدارتی انتخاب میں بھی عربی، گجراتی، پولش، روسی، یوکرینی اور اردو زبانوں میں بیلٹ پیپر شائع کیے گئے تھے۔

وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا میکور کی رپورٹ کے مطابق آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی شہریوں کو دیگر زبانوں میں بیلٹ پیپر کی فراہمی ووٹنگ کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کے لیے بنائے گئے وفاقی قوانین کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

"آئیڈاہو پالیسی انسٹی ٹیوٹ" سے منسلک پروفیسر گیب آسٹرہاؤٹ کے مطابق انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں ووٹنگ کی سہولت دینے کا مقصد معاشرے کے ایسے طبقات کو انتخابی عمل میں شامل کرنا تھا جو تاریخی طور پر اس سے باہر رہے ہیں۔

سن 1965 میں نافذ ہونے والے ووٹنگ رائٹس ایکٹ کا بنیادی ہدف جنوبی ریاستوں میں بسنے والے سیاہ فام امریکیوں کے حقِ رائے دہی کا تحفظ تھا۔ پھر 1975 میں اس کا دائرہ وسیع کرکے اس میں آبائی امریکی باشندوں، الاسکا کے مقامی افراد، لاطینی اور ایشیائی امریکیوں سمیت بعض مزید لسانی اقلیتوں کو بھی شامل کر لیا گیا۔

امریکہ میں بولی جانے والی زبانیں

امریکہ میں لگ بھگ 300 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہے۔

امریکہ کی 78 فی صد سے زائد آبادی کی زبان انگریزی ہے۔ دوسرے نمبر پر اسپینش یا ہسپانوی زبان آتی ہے۔ امریکہ کی آبادی میں اس کے بولنے والوں کی شرح 13 فی صد سے زائد ہے۔

اس کے علاوہ فرانسیسی، چینی، عربی، ہندی، اردو، پنجابی، تمل سمیت درجنوں زبانیں ہیں جو امریکہ میں بسنے والے شہری اپنے گھروں میں بولتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئینی طور پر امریکہ کی کوئی سرکاری یا ’آفیشل‘ زبان نہیں ہے۔ البتہ عام بول چال اور دفتری کارروائی وغیرہ میں سب سے زیادہ انگریزی استعمال ہوتی ہے۔

امریکہ کی بعض ریاستوں میں انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ تاہم منتخب نمائندگان کسی اور زبان کو دفتری یا سرکاری زبان قرار دینے کے لیے قانون سازی کر سکتے ہیں۔

امریکہ کی مرکزی حکومت کے لیے تمام وفاقی پروگرامز میں انگریزی زبان کی محدود صلاحیت رکھنے والوں کو معاونت فراہم کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔

بیلٹ پر دیگر زبانوں کے اندراج کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

ووٹنگ حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی ماہر جم ٹکر کا کہنا ہے کہ انگریزی میں ووٹنگ کا مواد یا الیکشن سے متعلق معلومات ایسے شہریوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوتا ہے جن کی تمام تعلیم مادری زبان میں ہوئی ہو یا انہیں کوئی اور زبان نہ آتی ہو۔ یہ دشواری انتخابی عمل میں ان کی شرکت میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔

امریکہ میں ہر پانچ برس بعد امریکہ کا ادارۂ شماریات ایسی لسانی اقلیتوں کی نشان دہی کرتا ہے جنہیں ان کی مادری زبان میں معلومات فراہم کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔

اگر کسی علاقے میں پانچ فی صد سے زائد رائے دہندگان کی انگریزی کی استعداد محدود ہو یا کسی انتخابی حلقے میں انگریزی بول چال اور پڑھنے لکھنے کی استعداد نہ رکھنے والے 10 ہزار سے زائد ووٹر ہوں تو انہیں ان کی مادری زبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

ان اعداد و شمار کی بنیاد پر مقامی انتخابی حکام کو انگریزی کے علاوہ بھی اور زبانوں میں بیلٹ پیپر سمیت دیگر انتخابی مواد فراہم کرنا ہوتا ہے۔

سن 2022 کے وسط مدتی انتخابات کے لیے 331 ایسے حلقوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں انتخابی مواد کی فراہمی کی شرط پر پورا اترتے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ایسے حلقوں کی یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ان میں سے زیادہ تر حلقے کاؤنٹیز اور شہروں کی سطح پر ہیں جہاں دیگر زبانوں میں انتخابی مواد فراہم کیا گیا ہے جب کہ تین ریاستیں ایسی ہیں جہاں پوری ریاست کی سطح پر یہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔

کیلی فورنیا، فلوریڈا اور ٹیکساس وہ ریاستیں ہیں جہاں ریاست کی سطح پر ہونے والے ہر انتخاب میں ہسپانی زبان میں انتخابی مواد فراہم کرنا لازمی ہے اور پوری ریاست میں بیلٹ پیپرز پر ہسپانوی زبان میں بھی ہدایات اور دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

مادری زبان اور ٹرن آؤٹ میں تعلق

امریکہ میں آٹھ کروڑ شہری ان حلقوں کے رہائشی ہیں جہاں انتخابی عملہ دیگر زبانوں میں انتخابی مواد اور معلومات فراہم کرے گا۔

یہ تعین کرنا کہ کس حلقے میں دیگر زبانوں میں انتخابی مواد فراہم کیا جائے گا، امریکہ کے محکمۂ انصاف کی ذمے داری ہے۔ لیکن اس کے لیے انتظامات اور طریقۂ کار اس حلقے کے مقامی حکام وضع کرتے ہیں۔

اس کے لیے کوئی طے شدہ طریقہ متعین نہیں ہے۔ اس لیے کئی کاؤنٹیز یا حلقۂ انتخاب میں اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض جگہ اس پر عمل درآمد نہیں بھی ہوپاتا۔

امریکہ کی ریاستی اور پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں میں کیا فرق ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:24 0:00

مختلف سروے رپورٹس سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لسانی اقلیتوں کو ان کی مادری زبان میں معلومات فراہم کرنے سے انتخابات میں ان کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

مثال کے طور پر لاطینی امریکیوں کی سیاسی شمولیت کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق جن کاؤنٹیز میں ہسپانوی زبان میں انتخابی مواد فراہم کیا گیا وہاں لاطینی امریکیوں کا ٹرن آؤٹ ایسی کاؤنٹیز کے مقابلے میں 11 فی صد زیادہ تھا جہاں یہ سہولت نہیں دی گئی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق جن کاؤنٹیز میں لاطینی امریکیوں کو لسانی معاونت فراہم کی جاتی ہے، وہاں ان کی ووٹ رجسٹریشن کرانے کی شرح بھی 15 فی صد زیادہ دیکھی گئی۔

ووٹنگ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی ماہر اور مصنف جم ٹکر کا کہنا ہے کہ 1975 کے بعد سے سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دیگر زبانوں میں معلومات اور انتخابی مواد کی فراہم کرنے سے ان لسانی اقلیتوں کی سیاسی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر زبانوں میں مواد کی فراہمی سے کوئی اضافی معاشی دباؤ بھی نہیں پڑا۔

XS
SM
MD
LG