رسائی کے لنکس

مودی حکومت کی تیسری مدت: پڑوسی ملکوں سے بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • مودی کی تقریبِ حلف برداری میں بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور ماریشس کے وزرائے اعظم یا صدور نے شرکت کی تھی۔
  • مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت گوکہ پڑوسیوں سے اچھے رشتے چاہتا ہے۔ لیکن اپنے قومی مفادات کی قیمت پر نہیں۔
  • پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی دیگر ملکوں کے مانند نریندر مودی کو پیغامِ تہنیت ارسال کیا ہے۔
  • وزیرِ خارجہ نے عہدہ سنبھالتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملکوں کی جانب سے بھارت کو انوکھے چیلنجز کا سامنا ہے اور چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔

نئی دہلی—نریندر مودی کے مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد نئی دہلی میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ تیسری مدت میں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور کیا پڑوسی ملکوں کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

حلف برداری کی تقریب میں متعدد پڑوسی ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں کی شرکت اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیانات سے ایسا عندیہ ملتا ہے کہ بھارت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اپنے رشتے بہتر کرنے کا خواہش مند ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت گوکہ پڑوسیوں سے اچھے رشتے چاہتا ہے۔ لیکن اپنے قومی مفادات کی قیمت پر نہیں۔ ایس جے شنکر کے بیانات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے تعلق سے بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد، سری لنکا کے صدر رانل وکرم سنگھے، نیپال کے وزیرِ اعظم پشپ کمل دہل پرچنڈ، بھوٹان کے وزیرِ اعظم شیرنگ توبگے، مالدیپ کے صدر محمد معیزو، ماریشس کے وزیرِ اعظم پروند کمار جگن ناتھ اور شیسلز کے نائب صدر احمد عارف نے شرکت کی تھی۔

جب کہ 2014 میں علاقائی تعاون کی جنوب ایشیائی تنظیم (سارک) کے آٹھ ممالک اور 2019 میں کثیر سیکٹر تکنیکی اور معاشی تعاون کی تنظیم (بمسٹیک) کے رکن ممالک اور ماریشس اور کرغزستان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

اس تقریب میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے تقریب میں حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں وزیرِ اعظم مودی نے ان ملکوں کے نمائندوں سے الگ الگ ملاقات اور تبادلہ خیال کیا تھا۔ سب سے لمبی ملاقات نواز شریف کے ساتھ چلی تھی۔

دوسری طرف بنگلہ دیش کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حلف برداری کی تینوں تقاریب میں اس کے نمائندوں نے شرکت کی۔

پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی دیگر ملکوں کے مانند نریندر مودی کو پیغامِ تہنیت ارسال کیا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ان پیغامات کے جواب میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ نے جو ردِ عمل ظاہر کیا تھا اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ایس جے شنکر نے منگل کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے وقت چین اور پاکستان کے بارے میں بھارت کی پالیسیوں کی وضاحت کی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ تیسری مدت میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے اور پاکستان کے ساتھ برسوں سے چلی آ رہی سرحد پار سے دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ مبذول کی جائے گی۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ پڑوسی ملکوں کی جانب سے بھارت کو انوکھے چیلنجز کا سامنا ہے اور چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔

اس حوالے سے سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان کے بارے میں بہت صاف صاف کہہ دیا ہے۔ دہشت گردی کی موجودگی میں اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ حلف برداری کے روز بھی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کی واردارت ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔

اسی قسم کا موقف بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ان کے مطابق وزیرِ خارجہ نے اپنے بیانات سے یہ پیغام دے دیا ہے کہ جو ممالک شدت پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے جس طرح ہمسایہ ملکوں کے سربراہوں کو مدعو کیا اس سے یہ واضح ہے کہ تیسری مدت کی مودی حکومت ان ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی حامی ہے۔

ان کے بقول جہاں تک چین کا تعلق ہے تو 2019 میں چین کے صدر شی جن پنگ نے وزیرِ اعظم منتخب ہونے پر نریند رمودی کو مبارک باد دی تھی۔ لیکن اِس بار ان کی جگہ پر وہاں کے وزیرِ اعظم نے مبارک باد پیش کی۔ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پناک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ ایس جے شنکر نے جہاں پاکستان کے تعلق سے بہت واضح طور پر یہ اشارہ دے دیا ہے۔ وہیں چین کے بارے میں انہوں نے ایک کھڑکی کھول دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی تنازعے کو مذاکرات کی مدد سے حل کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لائن آف ایکچووئل کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی برقرار ہے اور دونوں ملکوں کی جانب سے بڑی تعداد میں فوج اور اسلحہ تعینات ہے۔

خیال رہے کہ ایس جے شنکر نے اپنے بیانات میں مذاکرات اور سفارتی چینلوں سے سرحدی تنازعے کو حل کرنے پر توجہ دینے کا اشارہ دیا ہے۔

اسد مرزا کے مطابق بھارت اور چین کے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ ایل اے سی کے سلسلے میں دونوں کا اپنا اپنا مؤقف ہے۔ دونوں کے درمیان کمانڈر سطح پر کئی ادوار کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ بھارت مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حق میں ہے۔

تقریبِ حلف برداری میں چین حامی مالدیپ کے صدر محمد معیزو کی شرکت نے کئی مبصرین کو چونکا دیا۔ انہوں نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے کے تحت صدارتی انتخاب لڑا تھا اور کامیاب ہوئے تھے۔

صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے بھارت مخالف بیانات دیے اور ان کے شدید مطالبے کے آگے جھکتے ہوئے بھارت نے مالدیپ میں موجود اپنے فوجی اہل کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔

لیکن حلف برداری کی تقریب کے بعد جب نئے وزرا اور مہمانوں کے لیے عشایے کا اہتمام کیا گیا تو مودی نے معیزو کو اپنے برابر میں بیٹھنے کو جگہ دی۔

اسد مرزا کے مطابق دراصل مودی نے اس طرح دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ باہمی رشتوں میں کشیدگی کے باوجود مالدیپ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

مالدیپ کی یہ روایت رہی ہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وہاں کا صدر سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرتا رہا ہے۔ لیکن محمد معیزو نے پہلا دورہ چین کا کیا۔ حالاں کہ اس سلسلے میں مالدیپ کا کہنا تھا کہ تاریخوں پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔

محمد معیزو نے واپسی کے بعد اپنے بھارت کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالدیپ اور بھارت کے باہمی رشتوں کی مضبوطی سے مالدیپ میں خوش حالی میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے اپنے دورے کو مالدیپ اور پورے خطے کے لیے کامیاب قرار دیا۔

پناک رنجن چکرورتی کے مطابق مالدیپ کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں کشیدگی آئی تھی۔ لیکن دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ باہمی تعلقات میں بہتری دونوں کے لیے ضروری ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ بھارت کی معاشی ضرورتوں اور جیو پولیٹیکل سیاست کے پیش نظر بھی مالدیپ سے اس کے رشتوں کا بہتر ہونا ضروری ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں تک بنگلہ دیش کے بارے میں نئی حکومت کی پالیسی کا تعلق ہے تو وہ جوں کی توں برقرار رہے گی۔ حالاں کہ وہ بھی اب چین کی جانب جھک رہا ہے۔ لیکن اس کا بھارت سے اس کے رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

یاد رہے کہ بھار ت کی ’پڑوسی پہلے‘ کی پالیسی میں بنگلہ دیش کو اہم مقام حاصل ہے۔

نئی دہلی نے اسے آسان قرض کی شکل میں اربوں ڈالر دیے ہیں۔ اس نے سڑک، ریل، آبی راستوں، توانائی اور مواصلات کے سلسلے میں بھی اس کی کافی مدد کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG