ایک بین الاقوامی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ایسے چار ممالک میں شامل ہے جہاں انتظامی عہدوں پر خواتین کی تعداد سب سے کم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مردوں کے معاشرے میں انہیں کم تر سمجھنا ہے۔
سال 2018 میں دنیا بھر میں خواتین کی حیثیت اور حالتِ زار کے حوالے سے جاری عالمی اقتصادی فورم کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو صنفی برابری کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔
عالمی ادارے کی سالانہ رپورٹ میں 149 ممالک کی فہرست میں پاکستان 148 ویں نمبر پر ہے۔
یہی نہیں بلکہ پاکستان ان چار مسلم ممالک مصر، سعودی عرب، یمن کی صف میں شامل ہے جو خواتین سے امتیازی سلوک کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمار کیے گئے ہیں اور جہاں انتظامی عہدوں پر خواتین کی تعداد سب سے کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صنفی مساوات کی شرح 55 فی صد بنتی ہے جب کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا ایسے ممالک ہیں جن کی حکومتیں خواتین کی حالت کو اپنی کوششوں سے بہتر بنارہی ہیں۔ ان دونوں ممالک میں صنفی مساوات کا تناسب بالترتیب 72 اور 68 فی صد ہے۔
رپورٹ 149 ممالک کے چار شعبوں میں خواتین کی کارکردگی جانچنے کے بعد جاری کی گئی ہے۔ ان شعبوں میں تعلیم، صحت، اقتصادی مواقع اور سیاسی اختیار شامل ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کو مساوی تنخواہ اور تعلیم کے حصول کے اعتبار سے بہتر قرار دیا گیا ہے تاہم فہرست کے نچلے ترین درجے پر ہونے کے باعث بہتری آنے کی رفتار غیر تسلی بخش قرار دی گئی ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ تعلیم، صحت اور سیاسی نمائندگی میں خواتین اس سال پیچھے دکھائی دیتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مرد و خواتین کی تنخواہوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں کی تنخواہوں میں تقریباً 51 فی صد کا فرق ہے۔
رپورٹ کے مطابق رپورٹ میں دنیا کے جن 149 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے ان میں سے صرف 17 میں خواتین ریاست کی سربراہ ہیں جب کہ 18 فی صد خواتین وزرا کے عہدوں پر کام کررہی ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 24 فی صد ہے۔
صنفی مساوات کے حوالے سے جن ممالک کے اعدا د و شمار میسر ہیں، ان میں 34 فیصد انتظامی عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا دنیا بھر کے ان خطوں میں دوسرے کم ترین درجے پر ہے جہاں آج بھی مردوں کو ’برتر‘ سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا نمبر آتا ہے۔