رسائی کے لنکس

گجرات میں احمدی ڈاکٹر قتل، قصور میں دو احمدیوں کو ہراساں کرنے کا واقعہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وسطی پنجاب کے ضلع گجرات میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو دو افراد نے اس کے کلینک میں قتل کردیا ، مقتول کی عمر 75 سال تھی اور وہ ناروے کی شہریت بھی رکھتے تھے۔

کلینک سے کچھ ہی فاصلے پر ایک مبینہ حملہ آور کی لاش پائی گئی جس کے سر میں گولی لگی تھی۔ اس بارے علاقے کے لوگوں اور احمدی کمیونٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ مبینہ حملہ آور نے ڈاکٹر کو قتل کرنے کے بعد بھاگتے ہوئے اپنے سر میں گولی مارکر خودکشی کر لی ہے۔

دوسرے مبینہ حملہ آور کو پولیس نے گھر سے حراست میں لے لیا ہے جس بارے گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے گھر جاکر رونا دھونا شروع کردیا تھا کہ اس سے ڈاکٹر کا قتل ہوگیا ہے ، جس پر اہل خانہ کی طرف سے پولیس کو کال کی گئی اور پولیس نے ملزم بابر کو اس کے گھر سے ہی حراست میں لے لیا۔

گجرات کے تھانہ گلیانہ میں پولیس نے دونوں افراد کی ہلاکت پر قتل کی الگ الگ ایف آئی آرز درج کر لی ہیں۔

ضلعی پولیس کے ترجمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ مرنے والے دونوں افراد کے لواحقین نے جو درخواستیں دی تھیں ان پر مقدمات درج کیے گئے ہیں ، تاہم ان مقدمات کی تفتیش میں ہی واضح ہوگا کہ اصل وقوعہ کیا تھا اور قتل کے محرکات کیا تھے۔

سوشل میڈیا پر پنجاب کے ایک ضلع قصور میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو ہراساں کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ایک مذہبی جماعت کے کارکن اس شخص کو گھیرے میں لے کر نعرے بازی کرتے نظر آرہے ہیں۔

قصور پولیس کا کہنا ہے کہ وقوعہ کی بابت رپورٹ درج کر لی گئی ہے اور ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائیگا۔

احمدی ڈاکٹر کے قتل کے فوری کوئی نتائج اخذ نہیں کرسکتے: ترجمان ضلعی پولیس

گجرات پولیس کے ترجمان کاشف محمود نے کہا ہے کہ واقعہ کے فوری بعد کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا ، تاہم اس کیس کی تفتیش مختلف زاویوں سے کی جارہی ہے

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے پولیس ترجمان نے کہا کہ پولیس میرٹ پر اس معاملے کی چھان بین کررہی ہے ، دونوں مرنے والوں کے لواحقین نے قتل کی درخواستیں دی تھیں جن پر الگ الگ مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ قتل میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ حملہ آور کسی کے زیر اثر تھے یا یہ ان کا انفرادی فعل تھا؟ اس بات کا کھوج لگایا جانا ہے ، اور اس کےلیے پولیس کو وقت درکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ایف آئی آرز میں مدعیوں نے کسی مذہبی ایشو کا ذکر نہیں کیا ، تاہم اگر تفتیش میں کوئی اہم بات سامنے آتی ہے تو وقوعہ کی چھان بین کےلیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنائی جاسکتی ہے ، لیکن ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا اور تھانے کی پولیس ہی اس کی تفتیش کررہی ہے۔

سات ہزار کی آبادی میں احمدیوں کا ایک ہی خاندان آباد

گجرات کی تحصیل کھاریاں کا قصبہ گوٹریالہ لگ بھگ سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں احمدی کمیونٹی کا ایک ہی خاندان آباد ہے جس کے سات گھر ہیں۔

گاؤں کے لوگوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعہ سے پہلے کبھی یہاں مذہبی بنیاد پر کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

گاؤں کے ایک شخص غلام رسول نے بتایا کہ ڈاکٹر ارشد اپنے خاندان کے ہمراہ 40 سال سے زیادہ عرصہ سے ناروے میں مقیم تھے۔ اب کچھ ماہ سے ڈاکٹر ارشد سب کچھ چھوڑ کر اپنے گاؤں آگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا وہاں دل نہیں لگتا اور میں یہاں اپنے گاؤں والوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔

ایک محلے دار محمد جمیل نے بتایا کہ اکثر لوگ تو ان سے مفت کی دوائی لے لیا کرتے تھے کیونکہ گاؤں میں لوگوں کی اکثریت محنت مزدوری کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں مبینہ حملہ آور لڑکے ایک دو بار ان کے کلینک میں آتے جاتے دیکھے گئے تھے ۔ اب ان کی ڈاکٹر سے کیا بات چیت ہوئی اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ریکی کرنے آئے ہوں اور یہ دیکھنے کےلیے کہ گھر اور کلینک میں کون کون موجود ہوتا ہے۔

وقوعہ کی دو الگ الگ ایف آئی آرز

گجرات کے تھانہ گلیانہ میں اس واقعہ کی دو الگ الگ ایف آئی آرز درج کر لی گئی ہیں ۔ دونوں مقدمات میں ہونے والے وقوع میں ا ایک منٹ کا فرق ہے۔

ایف آئی آر نمبر 30 میں مدعی مقدمہ ضرار احمد ہے جوکہ مقتول ہومیو پیتھک ڈاکٹر ارشد کا بھتیجا ہے ، اس ایف آئی آر کے مطابق قتل کا واقعہ سہ پہر تین بج کر تیس منٹ پر پیش آیا۔


مدعی نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا کہ وہ اپنے چچا کے گھر آیا ہوا تھا جہاں گھر کے اندر بنائے گئے کلینک پر محمد ارشد کسی مریض کو چیک کررہے تھے اس دوران فائر کی آواز سنائی دی۔

مدعی کے مطابق انہوں نے فوری طور پر باہر نکل کر دیکھا تو بابر ولد عنایت اور انعام الحق ولد احسان الحق تیزی سے باہر کی جانب بھاگ گئے ۔ ہم نے کلینک کے اندر جاکر چچا کو دیکھا جوکہ زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوچکے تھے۔

تھانہ گلیانہ میں درج ہونے والی دوسری ایف آئی آر کا نمبر 31 ہے جوکہ اس وقوعہ سے ایک منٹ بعد یعنی تین بج کر 31 منٹ پر دوسرے وقوعے کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسری ایف آئی آر کے مدعی عمر احسان ہیں جوکہ کلینک سے کچھ فاصلے پر ہلاک ہونے والے انعام الحق کے بھائی ہیں۔

مدعی نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا کہ انعام اللہ اپنے ساتھیوں فیصل محمود اور محمد آصف کے ہمراہ اپنی زمینوں کی طرف جارہا تھا کہ اچانک دو افراد حملہ آور ہوگئے۔

مدعی کے مطابق ایک شخص نے انعام اللہ کو سر میں گولی ماری اور ہمیں آتا دیکھ کر دونوں حملہ اور وہاں سے فرار ہوگئے۔ ملزم نے اپنا پستول بھی وہیں پھینک دیا تھا۔

ایف آئی آر میں کسی ملزم کو نامزد تو نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ نامعلوم افراد نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر میرے بھائی کو ناحق قتل کیا ہے۔

اس بارے عمر احسان سے ان کے فون نمبر پر رابطہ کرکے بات چیت کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم صدمے کی حالت میں ہیں اور فی الحال کچھ بتا نہیں سکتے ، ہماری ایف آئی آر ہی ہمارا موقف ہے۔


قتل کے پیچھے منظم سازش ہے ، ماسٹر مائنڈ کو پکڑیں: مدعی

مدعی مقدمہ ضرار احمد کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام قتل نہیں بلکہ منظم سازش کے تحت احمدی ڈاکٹر کو قتل کیا گیا ۔ اس قتل کا مسٹر مائنڈ تاحال پولیس کی گرفت سے باہر ہے جسے گرفتار کیا جائے ورنہ وہ مزید خون خرابہ کرواسکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ضرار احمد نے کہا کہ دونوں حملہ آوروں کی عمریں 18سے 20 سال کے درمیان ہیں ۔ وہ کچے ذہنوں کے مالک ہیں اور حالات و واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں باقاعدہ بھڑکایا گیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آور حافظ انعام الحق نے کلینک سے کچھ ہی فاصلے پر بھاگتے ہوئے سب اہل دیہہ کے سامنے خودکشی کی ۔ اس کے باوجود پولیس نے خودکشی کی بجائے قتل کا مقدمہ درج کیا۔ یہ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے، یہ ہمارا مقدمہ دبانے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا حملہ آور بابر ولد عنایت قتل کے بعد اپنے گھر بھاگ گیا اور گھر جاکر رونے لگا کہ مجھ سے ڈاکٹر کا قتل ہوگیا ہے اور میرے دوست نے بھی خود کو گولی مار لی ہے۔

اس کے گھر والوں نے معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مقامی پولیس کو اطلاع کردی جنہوں نے گھر آکر ملزم بابر کو حراست میں لے لیا اور تھانے کی حوالات میں بند کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے کیس کی تفتیش کے بارے میں متاثرہ فریق یعنی احمدیوں کو کچھ نہیں بتایا جارہا ۔ زیرحراست ملزم بابر نے کیا اعتراف کیا ہے اور پولیس کو قتل کے محرکات کے بارے میں کیا بتایا ہے، ہم تاحال اس بارے لاعلم ہیں۔

ضرار احمد نے مطالبہ کیا کہ دونوں لڑکے جہاں زیرتعلیم تھے وہاں کے اساتذہ اور انتظامیہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے تاکہ احمدی ڈاکٹر کے قتل کے محرکات سامنے آسکیں ، اگر ماسٹر مائنڈ آزاد پھرتا رہا تو ہماری زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت کون دے گا۔

قصور میں مذہبی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے احمدی بزرگ کو ہراساں کی ویڈیو وائرل

پنجاب کے ضلع قصور میں ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے احمدی بزرگ اور ان کے ساتھی کو گھیر کر انہیں ہراساں کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس پر پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مذہبی جماعت کے کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ احمدی کمیونٹی کے دو افراد کو ان کی عبادت گاہ کے باہر لگ بھگ پچاس ساٹھ افراد کے ہجوم کی طرف سے مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ افراد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نعرے لبیک یا رسول اللہ لگا رہے ہیں۔

ہراساں کرنے والا ایک شخص موٹر سائیکل پر سوار شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ مرزائیوں کے شہر قصور کے صدر ہیں اور ان کا نام شیخ یوسف ہے۔ جس پر وہ ان سے کہتے ہیں کہ آپ صحیح کہتے ہیں ہیں میرا نام شیخ یوسف ہے۔

ان کے دوسرے ساتھی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا نام کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تنویر احمد ، اس پر مذہبی کارکن کہتے ہیں کہ صرف تنویر کہیں ، احمد نہیں۔

شیخ یوسف کا کہنا ہے کہ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد اس عبادت گاہ میں گزشتہ 60 سالوں سے اپنی عبادات کر رہے ہیں، تاہم جمعہ کے روز جب ہم وہاں پہنچے تو ہجوم پہلے سے ہی اکٹھا ہو چکا تھا اور ہمیں دھمکی دی کہ اگر ہم اندر گئے تو وہ اس عبادت گاہ پر زبردستی قبضہ کر لیں گے۔


انہوں نے کہا کہ ہجوم پرتشدد تھا لیکن چند مقامی لوگوں کی مداخلت سے ہمیں وہاں سے جانے کی اجازت ملی۔

گجرات اور قصور واقعات احمدیہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا تسلسل

پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے رہنما عامر محمود نے ایک بیان میں کہا کہ سال 2023 میں احمدیوں کے خلاف جاری مسلسل منافرانہ مہم کے نتیجے میں ایک احمدی کو قتل کر دیا گیا ہے۔

گجرات اور قصور کے واقعات احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قبروں کی بے حرمتی کے درمیان پیش آئے ہیں۔

اس سال کے آغاز سے اب تک پانچ عبادت گاہوں پر حملے ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے دو واقعات میں مقامی انتظامیہ عبادت گاہ کے میناروں کو تباہ کرنے میں براہ راست ملوث تھی۔

انہوں نے کہا کہ احمدیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ احمدیوں کے خلاف جاری نفرت انگیز مہم کو فوری طور پر روکا جائے اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

XS
SM
MD
LG