امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملہ ہیرس کی حلف برداری کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارت کے دیگر سیاسی رہنماؤں نے ان کو مبارک باد دی ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری مشترکہ اقدار پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کا کثیر جہتی دو طرفہ ایجنڈا ہے۔
نریندر مودی نے مزید کہا کہ ہم مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں جو بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور بھارت و امریکہ کی شراکت داری کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے پُر عزم ہوں۔
وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کاملہ ہیرس کے نائب صدر کے منصب کا حلف اٹھانے کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔
کانگریس کے سابق صدر اور سینئر رہنما راہول گاندھی نے بھی ٹوئٹ کر کے جو بائیڈن اور کاملہ ہیرس کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں جمہوریت کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
کانگریس کے سینئر رہنما پی چدم برم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے سیاسی رہنما 78 سالہ جو بائیڈن کو حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے جنہوں نے ایک تقسیم شدہ ملک کو متحد کرنے اور اس کی روح کو بحال کرنے کا عہد کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے سیاست داں کاملا ہیرس سے تکثیریت کا سبق سیکھنا چاہیے ۔
امریکہ کا موجودہ انتخاب بھارت کے لیے اس لیے بھی اہمیت کے حامل رہا ہے کہ نائب صدر کے منصب پر ایک بھارتی نژاد کاملہ ہیرس منتخب ہوئی ہیں۔
ان کا آبائی وطن تمل ناڈو کے ناگاپٹنم ضلع کا تھولا سینتھو پورم گاؤں ہے جہاں سے ان کی والدہ جمائکا ہجرت کر گئی تھیں۔
کملا ہیرس کے آبائی گاؤں میں جشن
کاملہ ہیرس کے نائب صدر کا حلف لینے کے موقع پر ان کے آبائی گاؤں میں جشن کا ماحول تھا۔ سڑکوں کو سجایا گیا اور مندروں میں ان کے لیے پوجا کی گئی۔ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرکے خوشی کا اطہار اور روایتی کھانا 'موروکو' بھی تیار کیا گیا۔
مقامی باشندوں نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی کاملہ آج امریکہ کی نائب صدر بن گئی ہیں۔
انہوں نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس معمولی سے گاؤں کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کیا۔
'امریکہ اور بھارت کے اختلافات باہمی تعلقات میں حائل نہیں ہوں گے'
بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات صدر بل کلنٹن کے زمانے سے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد جارج بش کے دور میں دونوں ممالک میں جوہری تعاون کا معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد براک اوباما کے دور میں تعلقات آگے بڑھے۔ وہ دو بار بھارت آئے۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو ممالک کے درمیان کچھ اختلافی امور بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بھی ویزہ یا بھارت کی جانب سے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدنے کے معاملے پر کچھ اختلافات ہیں۔ لیکن وہ باہمی تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔
قمر آغا نے امید کا اظہار کیا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ جو تجارتی معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور جو ٹرمپ انتظامیہ میں نہیں ہوا، وہ اس بار ہو جائے گا۔
وہ جو بائیڈن کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 150 ارب ڈالر ہے۔ وہ اس کو 500 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
'بائیڈن کی ٹیم میں 20 بھارتی شامل ہیں'
انہوں نے نئے نامزد امریکی وزیرِ دفاع جے لائیڈ آسٹن کے بیان کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات اور مضبوط ہوں گے۔
قمر آغا نے کہا کہ بھارت کے لیے مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ایک تو وہاں کی نائب صدر کاملہ ہیرس بھارتی نژاد ہیں اور دوسرا یہ کہ بائیڈن کی ٹیم میں 20 بھارتی نژاد شامل ہیں جو اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس بات پر یہاں کے عوام میں بہت خوشی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سب پہلے امریکی ہیں اور بعد میں بھارتی ہیں۔ لیکن خود جو بائیڈن بھارت کے ساتھ مضبوط رشتوں کے حق میں ہیں۔ اس لیے ان سے بھارت کو بہت امیدیں ہیں۔
امریکہ کے نامزد وزیرِ خارجہ اینتونی بلنکن نے کہا ہے کہ بھارت کو امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور دونوں کے دور میں باہمی رشتے مستحکم ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنی نامزدگی کے موقع پر کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ میں بھارت کے ساتھ تعلقات خاص طور پر دفاع اور اطلاعات کی شراکت کے سلسلے میں گہرے ہوئے اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھی انہیں آگے بڑھایا۔
حلف برداری کو بھارت کے ذرائع ابلاغ میں اہمیت دی گئی
جو بائیڈن اور کاملہ ہیرس کی حلف برداری کو بھارتی ذرائع ابلاغ میں کافی اہمیت دی گئی۔ تمام نیوز چینلوں نے اس تقریب کو براہِ راست دکھایا۔ جب کہ ماہرین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا کہ جو بائیڈن کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کیسے رہیں گے اور باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گی۔
نئی دہلی سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخباروں نے اداریے اور خصوصی مضامین شائع کیے ہیں اور باہمی رشتوں کا جائزہ لیا ہے۔
روزنامہ 'دی ہندو' نے نئے وزیر خارجہ اینتونی بلنکن کے بیان کی روشنی میں لکھا ہے کہ یہ واضح ہے کہ بھارت امریکہ اسٹریٹجک تعلقات مضبوط رہیں گے۔
تاہم اخبار نے بھارت کی جانب سے روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدنے کے بارے میں درپیش چیلنجز کا ذکر بھی کیا۔ جس کے بارے میں کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر دونوں ممالک میں تناؤ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ نئی دہلی کو امید ہے کہ بھارت کو رواں برس روس سے مذکورہ میزائل نظام حاصل ہو جائے گا۔
روس سے میزائل نظام کی خریداری کا معاملہ
اینتونی بلنکن نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کا کوئی اسٹریٹجک شراکت دار، واشنگٹن کے سب سے بڑے حریف روس کے ساتھ کھڑا ہے، تو یہ بات تسلیم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس نظام کی خریداری کی وجہ سے ترکی پر مزید کیا پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ کی پابندیوں کے امکانات کے باوجود بھارت ایس۔400 کی ٹریننگ لینے کے لیے ایک ٹیم ماسکو روانہ کر رہا ہے۔ اخبار 'دی ہندو' نے اس بیان کی روشنی میں کچھ خدشات کا اظہار کیا ہے۔
تمل ناڈو کے گاؤں میں جشن
کثیر الاشاعت اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' نے حلف برداری کی تقریب کی بڑے پیمانے پر کوریج کی ہے۔ اس نے کاملہ ہیرس کے آبائی گاؤں کی ایک تصویر شائع کی ہے جس میں کچھ لوگ کاملا ہیرس کا ایک بڑا سا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہیں۔
اخبار نے اس کی تفصیل پیش کی ہے کہ حلف برداری کے موقع پر مذکورہ گاؤں میں کیسے جشن منایا گیا۔
کیا جو بائیڈن کی تقریر ایک بھارتی نژاد نے لکھی؟
اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جو بائیڈن کی تقریر لکھنے والے ایک بھارتی نژاد ہیں۔ ان کا تعلق بھارتی ریاست تلنگانہ سے ہے اور ان کا نام سی ونے ریڈی ہے۔ وہ بائیڈن کی تقریر لکھنے والی ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔
اخبار کے مطابق ونے ریڈی پوری انتخابی مہم میں جو بائیڈن ٹیم کے ساتھ تھے۔ وہ 2013 سے 2017 تک بائیڈن کی نائب صدارت کی مدت میں بھی ان کے ساتھ رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق تلنگانہ میں واقع ان کے آبائی گاؤں کے لوگوں کو اس بات پر فخر ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والا شخص امریکی صدر کی تقریر کے لکھاری ہیں۔
ایک اور کثیر الاشاعت اخبار 'ہندوستان ٹائمز' نے اپنے اداریے میں لکھا کہ صدر کے منصب پر جو بائیڈن کا فائز ہونا ان تمام لوگوں کی فتح ہے۔ جو آزاد جمہوریت، اقدار پر مبنی مہذب سیاست، ذمہ دار قیادت اور حکومتی ڈھانچے میں اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی شمولیت پر یقین رکھتے ہیں۔
اداریے کے مطابق بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان تمام اقدار کی مخالف سمت میں کھڑے تھے۔ وہ آمریت پسند تھے۔
اخبار کے مطابق وہ اقتدار میں رہنے کے لیے تمام آئینی اداروں کو نقصان پہنچانے کے خواہاں تھے۔
اخبار نے اس امید کا اظہار کیا کہ بائیڈن بھارت کے ساتھ دفاع، معیشت، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبوں میں مل کر کام کریں گے اور توقع ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے نصف آخر میں بھارت کا دورہ کریں گے۔
اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور سیکرٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا امریکہ میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں۔
موجودہ سفیر ترنجیت سنگھ سندھو 1997 سے 2000 تک امریکہ میں بھارتی سفارت خانے میں فرسٹ سیکریٹری اور جولائی 2013 سے جنوری 2017 تک ڈپٹی چیف آف مشن رہے ہیں۔ لہٰذا امریکہ سے تعلقات نبھانے کا انہیں خاصا تجربہ ہے۔
اخبار کے مطابق نئی دہلی میں موجود حکومتی اہلکاروں کی نظریں باہمی تعلقات کے سلسلے میں پانچ اہم شعبوں پر ہیں۔ جن میں اسٹریٹجک تعلقات، ماحولیات، توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل اینڈ آئی ٹی ایجوکیشن اور صحت عامہ شامل ہیں۔
نئی دہلی کی نظر جون میں برطانیہ میں ہونے والے گروپ سات کے اجلاس پر بھی ہے جس میں شرکت کی دعوت برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن بھارت کے وزیرِ اعظم کو دے چکے ہیں۔ نئی دہلی کا خیال ہے کہ اس موقع پر امریکہ اور بھارت کے سربراہوں کی ملاقات ہو سکتی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ویزہ کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت ضابطوں کی وجہ سے دو لاکھ بھارتی طالب علموں کو امریکہ میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ بھارت کی کوشش ہو گی کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند طلبہ کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
ایک اور انگریزی روزنامہ 'اکنامک ٹائمز' کا اداریے میں کہنا ہے کہ بائیڈن کے دور میں بھارت امریکہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
اخبار نے بائیڈن کی جانب سے سات مسلم ممالک پر سفری پابندی کے خاتمے، کرونا وائرس کے سلسلے میں ویکسی نیشن میں تیزی لانے اور ایک کروڑ 10 لاکھ غیر دستاویزی تارکین وطن کی شہریت کے سلسلے میں فیصلوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔
بھارت کے بڑے اردو روزنامے 'انقلاب' نے اداریے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متعدد پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔
اخبار کے مطابق انہوں نے امریکہ آنے والے تارکین وطن کی زندگی اجیرن کر کے تارکین وطن اور مقامی باشندوں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ سچ یہ ہے کہ امریکہ کو تارکین وطن کا ملک کہا جاتا ہے۔ وہاں مختلف ممالک کے باشندوں کے بسنے کی وجہ سے ایک مشترکہ تہذیب وجود میں آئی جس نے امریکی معاشرے کو سنوارا۔
اخبار نے سات مسلم مالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے پر بھی سخت تنقید کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ سابقہ انتظامیہ میں جو مبینہ غلط فیصلے ہوئے تھے ان کو اب درست کیا جائے گا۔