بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے اور جمعرات کو بھی مختلف شہروں میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر کرفیو نافذ ہے فوجی دستے شہر میں گشت کر رہے ہیں۔
یہ مظاہرے منگل کو اس وقت شروع ہوئے جب پٹیل برادری کے لوگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں اپنے لیے کوٹہ مخصوص کرنے کے حق میں مظاہرے کر ر ہے تھے کہ پولیس نے ان کے ایک نوجوان رہنما کو گرفتار کر لیا۔
ریاست کے مرکزی شہر گاندھی نگر میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کیشوو شا کے مطابق مرنے والوں میں چھ مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار شامل ہے جب کہ 18 افراد شدید زخمی ہوئے۔
"اسکول، کاروباری مراکز آج (جمعرات) بھی بند رہیں گے۔ صورتحال کشیدہ اور کسی کو بھی اس میں مہم جوئی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔"
بعض علاقوں میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی سروس بھی بند ہے جس سے لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے اور وہاں کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
وزیراعظم نے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل تو کی ہے لیکن بظاہر مظاہرین کا احتجاجی رجحان کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
پٹیل برادری کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ پالیسیوں میں تبدیلی کے اپنے مطالبات جاری رکھیں گے کیونکہ ان کے بقول مخصوص نشستوں یا کوٹے کی وجہ سے نچلی ذات کے لوگ ان کے بقول زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس حالیہ کشیدہ صورتحال سے بعض لوگوں کے نزدیک 2002ء میں گجرات میں ہوئے فسادات کی یاد تازہ ہو رہی ہے جس میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔