ایران نے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل چابہار پورٹ کی توسیع میں سرمایہ کاری کرنے کا اپنا وعدہ مبینہ طور پر پورا نہ کرنے پر بھارت پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ ایران سے تیل کی درآمد میں تخفیف کرتا ہے تو اسے حاصل ہونے والی خصوصی مراعات ختم ہو جائیں گی۔
بھارت میں ایران کے نائب سفیر اور چارج ڈی افیئرس مسعود رضوانین رہاغی نے بھارت ایران تعلقات اور ابھرتے ہوئے چیلنجز کے موضوع پر بولتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ بہت افسوسناک ہے کہ بھارت نے چابہار پورٹ کی توسیع اور موصلاتی پروجکٹوں میں سرمایہ کاری کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا‘‘۔
انھوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اگر چابہار پورٹ میں اس کے تعاون اور شراکت داری کی اسٹریٹجک اہمیت ہے تو وہ اس سلسلے میں فوری طور پر ضروری اقدامات کرے گا۔ خیال رہے کہ ایران عراق اور سعودی عرب کے بعد بھارت کو تیل برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
ایک سینئر تجزیہ کار جاوید نقوی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے بھارت کی خارجہ پالیسی میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک وقت تھا جب بھارت کہہ سکتا تھا کہ ’’یہ ہمارا مؤقف ہے، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مگر اب بہت کچھ بدل چکا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ بھارت کے تاریخی رشتے رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت چابہار پورٹ بھی چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے پاکستان کو نیچا دکھا سکے۔
جاوید نقوی نے کہا کہ امریکہ کی دھمکی کے بعد ایران سے تیل خریدنے کے معاملے پر بھارت کے پاس بہت محدود متبادل ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ یوروپی ممالک سے امریکی دھمکی پر بات کرے۔
بھارت کی جانب سے ایران کے بیان پر تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ، بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ دوسرے ملکوں سے اس کے تعلقات کا انحصار کسی خاص ملک سے رشتے پر نہیں ہے اور وہ سب کے ساتھ متوازن تعلق رکھتا آیا ہے۔
حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد کہ اگر بھارت اور دیگر ممالک ایران سے تیل کی درآمد چار نومبر تک بند نہیں کریں گے تو ان پر بھی پابندی عاید ہو سکتی ہے، بھارت درمیان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔