رسائی کے لنکس

طالبان کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں؛ پینٹاگان کا انتباہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں بظاہر کابل پر قبضہ جمانے کے لیے اپنی کارروائیوں کی رفتار تیز کر دی ہے۔

طالبان نے جمعے کو افغانستان کے پانچ بڑے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں بالترتیب افغانستان کا دوسرا بڑا شہر قندھار اور تیسرا بڑا شہر ہرات بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل طالبان غزنی کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جو قندھار سے کابل کی جانب جانے والے راستے کا کلیدی شہر ہے اور دارالحکومت سے صرف 150 کلو میٹر فاصلے پر ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے کابل سے 50 کلو میٹر دور پڑاؤ ڈالا ہے۔ جب کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

افغانستان میں داخلی سلامتی کی صورتِ حال پر واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جمعے کو امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں وہ (طالبان) کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔

نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کابل کی صورت حال سے متعلق کہا تھا کہ ابھی وہاں زیادہ بڑے خطرے کا ماحول نہیں ہے۔

البتہ انہوں نے طالبان کی پیش قدمی کی رفتار کو ’گہری تشویش‘ کا باعث قرار دیا تھا۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ کابل کا گھیراؤ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا جواب وہ (طالبان) بہتر دے سکتے ہیں۔ ان کا طریقۂ کار افغانستان کے دیگر علاقوں سے مختلف نہیں جہاں وہ پہلے صوبائی دارالحکومتوں کو الگ تھلگ کرتے ہیں اور بعض مرتبہ لڑائی کے بغیر ہی فورسز ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔

ایک عہدے دار نے حساس نوعیت کی انٹیلی جنس معلومات کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صورتِ حال زیادہ اچھی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان کو جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں وہ ان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یقینی طور پر طالبان کی پیش قدمی افغان فورسز کے حوصلے اور صلاحیت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے۔

مبصرین کے مطابق اس بارے میں سوالات موجود ہیں کہ طالبان کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کتنے پر عزم ہیں۔

امریکہ کے افغانستان میں موجود اہل کاروں اور کابل ایئرپورٹ کے نزدیک کے علاقے کی سیکیورٹی کے لیے تین ہزار امریکی فوجیوں کی کابل میں موجودگی کی صورت میں یہ سوال اہم ہے کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہونے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں یا نہیں۔

افغانستان سے کچھ امریکی سفارت کاروں اور ہزاروں افغان باشندوں کو تیزی سے حفاظت کے ساتھ نکالنے کے لیے امریکی فوج کی میرین فورس کی پہلی بٹالین جمعے کو کابل پہنچ گئی ہے۔

یہ اقدام افغانستان میں طالبان کے تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے اور کابل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

امریکہ حکام نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ امریکی فورسز پر حملے کی کسی بھی کوشش کا جواب فضائی طاقت سے دیا جائے گا۔ ان فضائی حملوں میں نہ صرف قطر کے امریکی ہوائی اڈے یا خلیجِ فارس میں موجود طیارہ بردار بیڑے سے بمبار طیارے اور ڈرون شریک ہوں گے بلکہ کابل میں ایئر پورٹ پر موجود ہیلی کاپٹر بھی اس کارروائی کا حصہ بنیں گے۔

اس کے علاوہ حکام نے کابل کے زیادہ تر حصے اور ایئرپورٹ کو سیکیورٹی فراہم کرنے والی اور ملک کے دیگر علاقوں میں طالبان کا مقابلہ کرنے والی افغان فورسز کی حمایت کا اعادہ بھی کیا ہے۔

جمعے کو پینٹاگان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا رُخ پلٹنے کا امکان اب بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ میدان میں صورت حال تبدیل کرسکتے ہیں۔

طالبان کے علاوہ افغانستان میں کون سے عسکریت پسند گروپ ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

تاہم موجودہ صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان نے بظاہر پیش قدمی کی رفتار بڑھا دی ہے۔ حالیہ پیش قدمی میں جنگجو افغانستان کے 34 میں سے 18 صوبوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کو خبردار کیا تھا کہ طالبان تمام صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے افغان سیکیورٹی فورسز پر زور دیا تھا کہ وہ مزاحمت ختم کر دیں اور اپنی جان خطرے میں نہ ڈالیں۔

نیٹو سیکریٹری جنرل جینس اسٹالٹنبرگ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی فوج کے انخلا کے باوجود کابل میں سفارتی مشن موجود رہے گا اور ضرورت کے مطابق ایڈجسٹ کرتا رہے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنا ہمارا مقصد رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG