رسائی کے لنکس

افغانستان پر پابندیاں: کیا اربوں ڈالر کے کان کنی کے معاہدوں پر عمل درآمد ممکن ہے؟


افغانستان میں طالبان حکومت نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ انہوں نے چین، ایران، ترکیہ اور برطانوی کمپنیوں کے ساتھ ساڑھے چھے ارب ڈالر سے زائد مالیت کے کان کنی کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیر برائے کان کنی و پیٹرولیم شہاب الدین دلاور کے مطابق جمعرات کو ہونے والے سات معاہدوں کے تحت افغان صوبوں، تخار، غور، ہرات اور لوگر میں سونا، تانبا، لوہا، سیسہ اور زنک نکالا جائے گا۔

شہاب الدین دلاور کا مزید کہنا تھا کہ ان معاہدوں سے مجموعی طور پر لگ بھگ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی اور اس سے ملک میں ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا۔

وزیرِ پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ تخار میں سونا نکالنے کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ طالبان حکومت کو پانچ برسوں میں ہونے والی کمائی کا 65 فی صد حصہ دے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہرات میں لوہے کی کان کنی اور پروسیسنگ کے لیے ترکیہ، ایرانی اور برطانوی سرمایہ کاری پر مشتمل دیگر معاہدوں سے حکومت کو 30 برس میں 13 فی صد حصہ ملے گا۔

شہاب الدین دلاورنے کہا کہ ان معاہدوں سے افغانستان لوہا برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔

معاہدوں کی کامیابی پر اٹھنے والے سوالات

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے شکوک و شبہات کے شکار افراد معاہدوں پر عمل درآمد پر سوال اٹھاتے ہیں۔

کان کنی اور پیٹرولیم کی وزارت کے سابق اہلکار تمیم عاصی کہتے ہیں کہ افغانستان کا مالیاتی اور بینکنگ کا شعبہ تقریباً مفلوج ہے، لہذٰا مالی لین دین کیسے ہو گا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے اظہارِ خیال کرتے ہوئےتمیم عاصی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاہدوں کے انتظام کے لیے تیکنیکی اور قانونی معاملات کا فقدان ہے۔

عاصی نے مزید کہا کہ "کان کنی کے شعبے کے لیے قانونی پالیسی کا فریم ورک نہ صرف مبہم ہے بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔"

اس سال کے شروع میں ایک چینی فرم نے طالبان انتظامیہ کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا تھا۔ بیجنگ نے حال ہی میں افغانستان میں لیتھیم کان کنی میں سرمایہ کاری میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔

خشکی سے گھرے افغانستان میں مبینہ طور پر 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی قیمتی معدنیات موجود ہیں جن میں ریچارج ایبل بیٹریوں میں استعمال ہونے والے انتہائی مطلوب لیتھیم کے ذخائر بھی شامل ہیں۔

افغان معیشت کی موجودہ صورتِ حال

بعض مبصرین کے مطابق، طالبان نے افغانستان کی معیشت کو مستحکم کیا ہے اور پڑوسی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا ہے۔

ورلڈ بینک نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں گزشتہ دو ماہ سے مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "سامان کی سپلائی کافی ہے، لیکن مانگ کم ہے۔ 50 فی صد سے زیادہ افغان گھرانے اپنی روزی روٹی اور اخراجات کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔"

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2023 کے پہلے سات ماہ میں بڑی تجارتی کرنسیوں کے مقابلے میں مقامی کرنسی، افغانی کی قدر بڑھی ہے۔

لیکن کابل میں طالبان کی صرف مردوں پر مشتمل حکومت خواتین کی کام اور تعلیم تک رسائی پر پابندیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں تنقید کی زد میں ہے۔

پندرہ اگست 2021 کو امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے تنازعات کے شکار ملک میں اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی سخت تشریح کا نفاذ کیا ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے فرمودات بنیادی طور پر ان کی حکومت کے لیے پالیسی کے رہنما اصول طے کرتے ہیں۔

اخوندزادہ نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کر دی ہے اور زیادہ تر خواتین کو ایک ایسے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے سے روک دیا ہے جہاں دو تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

طالبان نے ملک بھر میں خواتین کے ہزاروں سیلون بند کر دیے ہیں۔ خواتین کو عوامی پارکوں اور تفریحی مقامات میں جانے اور مرد سرپرست کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

افغان خواتین کے ساتھ سلوک کی وجہ سے غیر ملکی حکومتوں نے کابل میں طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے جسے 'امارت اسلامیہ افغانستان' کہا جاتا ہے۔

تیس اگست 2021 کو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمہ پر امریکہ کےآخری فوجی افغانستان سے روانہ ہوئے تھے۔

بدھ کو صدر جو بائیڈن نے افغان جنگ کے خاتمے کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ایک بیان میں اپنے فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔

صدر نے کہا تھا کہ "ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے لیے خطرے کا باعث بننے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے ہمیں کسی جگہ پر اپنی فوج مستقل طور پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

صدر 30 جولائی 2022 کو ہونے والے ڈرون حملے کا حوالہ دے رہے تھے جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو کابل کے مرکز میں ان کے گھر میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG