سلامتی کونسل کا اجلاس: افغان مندوب کا طالبان حکومت پر پابندی لگانے اور تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ
اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مندوب غلام اسحاقزی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کو تسلیم نہ کرے اور ان پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں۔
جمعرات کو سلامتی کونسل کے ورچوئل اجلاس کے دوران غلام اسحاقزی نے خطاب کے دوران کہا کہ طالبان کی جانب سے نگراں حکومت کے لیے اعلان کردہ شخصیات پر بیرونِ ملک سفر پر پابندی سمیت اقوامِ متحدہ کی موجودہ پابندیوں کو نافذ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان رہنماؤں کے لیے سفری پابندیوں میں نرمی کی گئی تو وہ اس عمل کو بین الاقوامی سطح پر اپنی غیر متنوع حکومت کے لیے پذیرائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ غلام اسحاقزی معزول صدر اشرف غنی کی کابینہ کا حصہ تھے جو طالبان کی جانب سے سات ستمبر کو عبوری حکومت کے اعلان کے باوجود اب تک سلامتی کونسل میں افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
افغان صحافیوں کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مدیر
افغانستان سے شائع والے روزنامہ ’اطلاعات روز‘ کے مدیر ذکی دریابی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اخبار سے منسلک دو صحافیوں کو طالبان کی حراست میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ذکی دریابی نے ٹوئٹر پر دونوں مرد صحافیوں کی تصاویر شئیر کیں جس میں ان کی کمر، ٹانگوں اور چہرے پر تشدد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق،دونوں پر تشدد کی تصاویر کی ادارے نے تصدیق کی ہے۔
رائیٹرز کے مطابق، جب ان تصاویر کے بارے میں طالبان کے ایک سینئر وزیر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ردعمل میں کہا کہ صحافیوں پر حملے کے واقعات کی تحقیق کی جائے گی۔
'اطلاعات روز' کے مدیر ذکی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے تشدد نے افغانستان میں میڈیا کے لیے تشویش کا پیغام دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے صحافیوں کے گھروں کی تلاشی، انخلا کے عمل میں تیزی
اس واقعے کے ایک روز بعد انہوں نے جمعرات کے روز رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ’’پانچ ساتھیوں کو چار گھنٹے تک حراستی سینٹر رکھا گیا، ان چار گھنٹوں کے دوران ہمارے دو ساتھیوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘
مدیر کے مطابق،دونوں زخمی رپورٹروں کو ڈاکٹروں کی جانب سے دو ہفتے آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔
لیکن، بعض افغان شہری تشدد کے ایسے واقعات کے بعد طالبان کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
افغانستان میں خاتون صحافی کو کام سے کس نے روکا؟
تشدد کا نشانہ بننے والے رپورٹروں میں سے ایک رپورٹر تقی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سات یا آٹھ افراد نے انہیں مبینہ طور پر دس منٹ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔
بقول ان کے، ’’وہ ڈنڈوں سے پورا زور لگا کر ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمیں مارنے پیٹنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ ہم بے ہوش ہو گئے ہیں تو انہوں نے ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ لاک اپ میں بند کر دیا۔‘‘ خبر رساں ادارہ رائیٹرز اپنے طور پر اس بیان کی تصدیق نہیں کرسکا ہے۔
طالبان کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک کئی صحافی اس قسم کی شکایات سامنے لا چکے ہیں اور بعض خاتون صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اپنی میڈیا کی ملازمتیں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ذکی دریابی کے بقول ’’حکومت کے یکدم انہدام کے بعد 'اطلاعات روز' نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس امید پر اپنا کام جاری رکھیں گے کہ میڈیا اور صحافیوں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کل کے واقعے کے بعد، ملک میں میڈیا اور صحافیوں کے مستقبل کے بارے میں جو امید باقی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘
افغانستان سے تجارت ڈالر میں نہیں ہو گی، شوکت عزیز
پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مختلف معمولات چلانے کیلئے پاکستان سے بھی لوگوں کو افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں روپے میں ہو گی۔
اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا، اس وقت افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں۔ یہ ڈالرز آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے افغانستان روکے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں ڈالرز کی کمی ہے۔ ہم افغانستان کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہے ہیں۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت صورتحال کے باعث مختلف معمولات چلانے کے لیے پاکستان سےلوگوں کو بھیجا جاسکتا ہے، لیکن اس بارے میں حکومتی سطح پر بات چیت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
شوکت ترین نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ صورتحال کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا افغانستان جانے سے مقامی قلت کا خدشہ ہے جس کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ کسی بھی قسم کی قلت کو روکنے کے لیے اضافی ذخائر قائم کیے جا رہے ہیں۔
شوکت ترین نے اجلاس میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف اور یورو بانڈ سمیت سوا چھ ارب ڈالر کے فنڈز حاصل ہوئے ہیں، اس سے زر مبادلہ ذخائر بلند ترین سطح تک پہنچ گئے، لیکن ذخائر میں اضافے کا تعلق تجارت سے نہیں ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت ڈالر کی کمی ہے اور آئندہ کچھ عرصے تک صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا، ایسےمیں افغانستان کےسات روپےمیں تجارت کرنا بہتر ہوگا۔
خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ماضی میں چین کےساتھ بھی چینی یوان اور پاکستای روپے میں تجارت کرنے کی بات کی گئی تھی۔ افغانستان کی معیشت گذشتہ 20 سال سے ڈالر پر انحصار کررہی تھی، لیکن اب موجودہ صورتحال میں ان کے پاس ڈالرز کی کمی ہے۔ ایسے میں روپے میں تجارت سے بہتری آئے گی۔ افغان کرنسی اور پاکستانی روپے جس تیسری رقم کے برابر تصور ہونگی وہ ڈالر ہی ہوگا۔ لیکن مشکل معاشی حالات میں دونوں ملکوں کے لیے یہ ایک بہتر فیصلہ ہے۔ افغانستان میں اس وقت وہ کھانے پینے کی اشیا کے لیےبھی پاکستان پر انحصار کرتے ہیں ایسے میں ڈالر نہ ہونے سے وہاں بحران پیدا ہوسکتا ہے جس کےلیے پاکستان کا اچھا اقدام ہے۔
افغانستان کی معیشت کو دیکھنےکے لیےپاکستان سے ماہرین بھجوانے کے معاملہ پر خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ عارضی بنیادوں پر پاکستان سے ہیومن کیپٹل بھجوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس میں اگر ایک ملک مشکلات کا شکار ہو اور وہاں اس شعبے سے متعلق کام کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں تو پاکستان سے ضرور ماہرین کو بھجوانا چاہیے۔
معاشی امور پر کام کرنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر 168 روپےتک پہنچ چکا ہے، جبکہ افغان کرنسی ہمارے روپے کے مقابلہ میں بہتر ہے۔ اس وقت افغان روپیہ 90 روپے کے قریب ہے۔ لہذا، ایسی صورتحال میں افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
پاکستان کا چین کے ساتھ بھی روپے اور یوان کا معاہدہ ہے
پاکستان کا سال 2011 میں ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت کرنے کا معاہدہ موجود ہے۔ لیکن سال 2018 میں اس بارے میں عملی طور پر کام کا آغاز کیا گیا اور اس بارے میں میکنزم تشکیل دیا گیا، جس کے مطابق، چین کے ساتھ ہونے والے آئندہ معاہدے یوان میں کیے جائیں گے۔ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ تاہم، گوادر اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں چینی کرنسی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا۔
اس معاہدہ کے تحت پاکستان، چین سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی یوآن میں اور چین پاکستان سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی روپوں میں کر سکتا ہے۔ ادائیگی کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک اور پیپلز بینک آف چائنا کے درمیان کرنسی سوئیپ کا معاہدہ ہوا تھا۔
امریکی انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ سے پہلی مسافر بردار پرواز
جمعرات کے روز کابل کے انٹرنیشننل ایئرپورٹ سے تقریباً 200 مسافروں کو لے کر ایک کمرشل فلائٹ نے اڑان بھری،جس میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے امریکی اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد یہ حامد کرزئی انٹرنینشنل ایئرپورٹ سے اتنی بڑی تعداد میں مسافروں کی پہلی پرواز تھی۔
امریکہ اور افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں کے درمیان غیرمتوازن تعلقات کے دوران کابل سے قطر ایئرویز کی دوحہ کے لیے فلائٹ کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایک اور ہوائی اڈے پر چارٹر طیاروں سے روانگی کے خواہش مند درجنوں مسافر پھنسے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے آیا طالبان ان غیر ملکیوں اور افغان باشندوں کو مناسب سفری دستاویزات کے ساتھ ملک چھوڑنے کی اجازت دیں گے۔
ایک سینئر امریکی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ طالبان کے دو سینئر عہدے داروں نے مسافروں اور طیارے کی روانگی میں مدد دی۔
عہدے دار نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل سے پرواز کرنے والے اس کمرشل طیارے میں امریکیوں، گرین کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کے ساتھ جرمنی،کینیڈا اور ہنگری سے تعلق رکھنے والے مسافر بھی سوار ہیں۔
طیارے پر سوار ہونے سے قبل طالبان حکام نے رن وے کا معائنہ کیا، مسافروں کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی، تربیت یافتہ کتوں نے مسافروں کے سامان کو سونگھا،جس کے بعد انہیں طیارے میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی۔
ایئرپورٹ پرکام کرنے والے کئی کارکن جو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنی ملازمتوں سے فرار ہو گئے تھے، کام پر واپس آ گئے ہیں۔
12 سالہ پوپلزئی نے، جو امریکی انخلا کے بعد کابل سے پہلے کمرشل فلائٹ پر اپنی والدہ اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ سوار تھی، بتایا کہ ان کا خاندان امریکی ریاست میری لینڈ میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں افغان ہوں لیکن ہم امریکہ میں رہتے ہیں اور یہاں سے روانہ ہوتے ہوئے ہم بہت خوش ہیں۔
چارٹرڈ فلائٹس کو روانگی کی اجازت دی جائے، امریکہ کا طالبان سے مطالبہ
طیارے کی روانگی سے قبل قطری عہدے داروں نے کابل ایئرپورٹ کے رن وے اور دوسرے حصوں کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ ضروری مرمت کے بعد اب یہ ایئرپورٹ بین الاقوامی کمرشل پروازوں کے استعمال کے لیے تیار ہے۔
قطر کےخصوصی سفات کار مطلق بن ماجد الثانی نے اس موقع پر کہا کہ میں واضح طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کا دن افغانستان کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز دن ہے، کیونکہ کابل کا ایئرپورٹ اب آپریشنل ہو چکا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس فلائٹ کو آپ جو چاہے نام دے دیں، چاہے اسے چارٹر فلائٹ کہیں یا کمرشل، لیکن اس پر سوار ہونے والے ہر مسافر کے پاس ٹکٹ اور بورڈنگ پاس موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور فلائٹ جمعے کو روانہ ہو گی اور امید ہے کہ افغانستان میں زندگی اپنے معمول پر آ رہی ہے۔
کیا عالمی دباؤ سے افغان طالبان پر کوئی اثر پڑے گا؟
ایک اور غیر ملکی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ میڈیا کو بتایا کہ اگلے چند روز میں امریکیوں سمیت تقریباً 200 غیرملکی افغانستان سے پرواز کریں گے۔
اگرچہ طالبان نے دنیا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ جائز سفری دستاویزات رکھنے والے ہر مسافر کو ملک سے جانے کی اجازت دیں گے، لیکن ملک کے شمال میں مزار شریف ایئرپورٹ پر بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جائز سفری دستاویزات نہیں ہیں۔
دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چارٹر طیاروں کو پرواز کی اجازت دیں۔