رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

02:17 8.9.2021

طالباں سفری دستاویزات رکھنے والوں کے ملک سے باہر جانے کی اجازت کے وعدے کی پاسداری کریں، بلنکن

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، فائل فوٹو
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، فائل فوٹو

امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے طالبان کو یاد دلایا ہے کہ دنیا اس بات کو بغور دیکھ رہی ہے کہ کیا طالبان اپنے اس وعدے کو پورا کر رہے ہیں کہ کسی بھی افغان باشندے کو قانونی سفری دستاویز رکھنے پر اس کی مرضی کے مطابق ملک سے باہر جانے دیا جائے گا۔

بلنکن نے قطر کے دورے کے دوران بتایا کہ باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں اس وقت، جہاں اب طالبان کا کنٹرول ہے، ایک سو کے قریب امریکی موجود ہیں جن میں دہری شہریت رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ امریکہ کا محکمہ خارجہ تمام امریکی شہریوں سے براہ راست رابطے میں ہے۔ اور ہر شہری کے لیے الگ کیس مینیجر مقرر کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ امریکی شہری جو افغانستان چھوڑنا چاہیں، ملک سے باہر جا سکیں۔

وزیر خارجہ نے کہا گزشتہ 24 گھنٹوں میں طالبان اپنے وعدے پر قائم رہے ہیں اور انہوں نے چار افراد پر مشتمل ایک امریکی خاندان کو افغانستان چھوڑنے دیا اور اب خاندان کے افراد زمینی راستے سے ملک سے نکل چکے ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ایک اہل کار نے پیر کو کہا کہ طالبان اس خاندان کے ملک سے نکلنے سے آگاہ تھے لیکن سرکاری اہل کارنے یہ نہیں بتایا کہ امریکی خاندان نے افغانستان سے نکل کر کس ملک کا رخ کیا۔

امریکہ کے وزرائے خارجہ و دفاع قطر کے نائب وزیر اعظم کے ساتھ

خیال رہے کہ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اس وقت امریکی سفارت کاری کے سلسلے میں مشرق وسطی کے ملکوں کے دوروں پر ہیں۔

قطر میں قیام کے دوران وزیر خارجہ بلنکن نے قطر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے ملک نے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکی،خطرات میں گھرے افغان اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے انخلا میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

قطر افغانستان سے نکلنے والے 58,000 لوگوں کے لیے پہلا اسٹاپ تھا جہاں سے یہ لوگ ایک بہتر اور پر امن مستقبل کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔

بلنکن نے قطر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

بلنکن نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ہمراہ نامہ نگاروں سے بات کرنے سے پہلے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور وزیر دفاع خالد بن محمد ال عطیہ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔میٹنگ میں افغانستان کے علاوہ تجارت، انسداد دہشت گردی اور انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد پر بات چیت کی گئی۔

قطر کے وزیر خارجہ الثانی نے بتایا کہ ان کے ملک کی ماہرین پر مشتمل ٹیمیں کابل میں تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہاں پر ایئر پورٹ کو فعال بنا کر اسے انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد اور تجارتی پروازوں کے لیے کھولا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی ضروری ساز و سامان اور سیکیورٹی کے معیارات جیسی اہم ترین سہولتوں کی دستیابی کا کام باقی ہے جن کی دستیابی کے بعد مسافر بین الااقوامی پروازوں کے لیے کابل ایئر پورٹ سے سفر کر سکیں گے۔

ابل ایئر پورٹ پر وی او اے کی نامہ نگار نے کیا دیکھا؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی اقدامات اٹھائے جائیں اور طالبان کے ساتھ اس معاملے پر اتفاق ہو جائے تو ایئرپورٹ کو فعال بنانے کے حوالے سے آسانی ہو گی۔

یاد رہے کہ کابل ایئر پورٹ پر طالبان کے دارالحکومت پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد کئی روز تک افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ جب کہ امریکہ نے ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا نظام سنبھال کر ملک سے انخلا کے لیے پروازوں کو جاری رکھا۔ اس دوران انتہا پسند تنظیم داعش کے خراساں گروپ کے حملہ آوروں کے ایک حملے میں 13 امریکی فوجی اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔

قطر میں دورے کے دوران وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی کوششوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی دو عشروں کی افغانستان میں موجودگی کے اختتام پر وہاں جو کچھ ہوا اس کا آنے والے دنوں اور مہینوں میں جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا"مجھے اپنی فوج کے جوانوں اور خواتین کی اس عظیم کاوش پر فخر ہے جو انہوں نے ایک لاکھ 25 ہزار افراد کو کابل ایئرپورٹ سے مختصر سے وقت میں وہاں سے نکالنے کے سلسلے میں سر انجام دی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی آپریشن مکمل طورپرمثالی نہیں ہوتا اور سیکھنے کا موقع ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

اب جب کہ افغانستان میں امریکی فوجیں موجود نہیں ہیں، اس بات پر کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس خطے سے ہونے والے خطرات کی شناخت اور ان سے مقابلہ کرنے میں دشواریاں زیادہ ہوں گی۔

SEE ALSO:

کیا عالمی برادری طالبان کے تبدیلی کے وعدوں پر یقین کرے گی؟

لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک کے لیے خطرات سر نہ اٹھائیں۔

"دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں امریکہ نہ پہنچ سکے اور ہم نے اس بات کو بارہا ثابت کر دکھایا ہے۔"

اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں وزیر خارجہ بلنکن جرمنی جائیں گے جہاں وہ امریکی فوجیوں اور افغان پناہ گزینوں سے امریکی ایئر بیس رامسٹائین میں ملاقات کریں گے۔

وہ 20 ممالک کے وزرا سے افغانستان کی صورت حال پر ایک ورچوئل یعنی آن لائن کانفرس سے بھی خطاب کریں گے۔

آسٹن اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں مشرق وسطی میں امریکہ کے حلیف ممالک بحریں، کویت اور سعودی عرب جائیں گے۔

02:12 8.9.2021

طالبان نے نگران کابینہ کا اعلان کر دیا، حسن اخوند وزیر اعظم مقرر

ایک افغان شہری طالبان کے پرچم فروخت کر رہا ہے۔ دیوار پر طالبان لیڈورں کی تصاویر آویزاں ہیں۔
ایک افغان شہری طالبان کے پرچم فروخت کر رہا ہے۔ دیوار پر طالبان لیڈورں کی تصاویر آویزاں ہیں۔

طالبان نے منگل کے روز اپنی نگران کابینہ کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جس میں طالبان نے اپنے پرانے کارکنوں کو اہمیت دیتے ہوئے اعلی عہدوں ان شخصیات کو مقرر کیا ہےجو امریکی قیادت کی اتحادی افواج اور ان کے ساتھ شامل افغان حکومت کے خلاف 20 سالہ جنگ میں نمایاں رہی ہیں۔

نئی کابینہ کے ناموں کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو کابل میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

طالبان کے ترجمان ذبیج اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ حسن اخوند کو نئی حکومت کا قائم مقام وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے جب کہ ملا عبدالغنی برادر قائم مقام نائب وزیر اعظم ہوں گے۔

سراج الدین حقانی قائم مقام وزیر داخلہ مقرر کیے گئے ہیں۔ شیر محمد عباس ستنکزئی کو نئی افغان حکومت میں قائم مقام نائب وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گییا ہے جب کہ امیر خان متقی قائم مقام وزیر خارجہ ہوں گے۔ اور مولوی عبدالحاکم کو وزیرِ انصاف مقرر کیا گیا ہے۔

ملا حسن اخوند، سن 1999 میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کے دورے پر اپنے ہم منصب سرتاج عزیز کے ساتھ۔ 24 اگست 1999

وزارت دفاع کا قلم دان ملا یعقوب کو تفویض کیا گیا ہے۔ وہ قائم مقام وزیردفاع کے طور پر کام کریں گے۔ وہ طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے صاحب زادے ہیں۔

ملا حسن اخوند طالبان کے پہلے دور حکومت میں کابل میں قائم طالبان حکومت کے سربراہ تھے۔

ملا عبدالغنی برادر جنہیں اخوند کا نائب مقرر کیا گیا ہے، امریکہ کے ساتھ بات چیت میں طالبان وفد کی قیادت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ہی طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

وزیراعظم کے دو نائب ہوں گے جن میں سے ایک پر ملا برادر کا تقرر ہوا ہے۔

طالبان رہنما خلیل الرحمن حقانی کو قائم مقام وزیر برائے پناہ گزین، ملا ہدایت اللہ بدری وزیرِ خزانہ جب کہ شیخ اللہ منیر وزیرِ تعلیم ہوں گے۔

افغانستان کے ٹی وی پر خاتون اینکر دوبارہ

ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ یہ فی الوقتی سیٹ اپ ہے جو اُمور مملکت چلانے کے لیے تشکیل دیا گیا، تاہم اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ نئی کابینہ کی منظوری طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے دی ہے۔ البتہ طالبان کے سربراہ خود کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔

اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ نئی حکومت میں غیر طالبان عہدے دار بھی شریک ہوں گے جو کہ بین الاقوامی کمیونٹی کا ایک سب سے بڑا مطالبہ ہے۔

نئی کابینہ میں کسی خاتون وزیر کو شامل نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ طالبان پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے تھے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو بعض سرکاری محکموں میں کام کی اجازت دیں گے۔ البتہ کابینہ میں اُنہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔

اپنی پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور اسلامی امارات کے قیام کے لیے اب میدان صاف ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ طالبان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس ضمن میں مختلف ممالک کے نمائندے افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نگران حکومت کے عہدے داروں کے ناموں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جب کابل میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور کئی صحافیوں کو حراست میں لیا۔

طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ: کون سے رہنما اہم، قیادت کس کے ہاتھوں میں ہے؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں دوسری مرتبہ ہے کہ طالبان نے دارالحکومت کابل میں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سختی سے کام لیا ہے۔

مظاہرین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے اکھٹے ہو کر اسلام آباد پر یہ الزام لگایا کہ وہ پنج شیر میں طالبان مخالف محاذ کے خلاف جنگ میں طالبان کی مدد کر رہا ہے۔

طالبان نے پیر کے روز کہا تھا کہ انہوں نے صوبہ پنج شیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہ آخری صوبہ تھا جس پر طالبان کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لڑائی سے قبل کئی دنوں تک متحدہ محاذ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے تھے، جس کی ناکامی کے بعد طالبان نے پنج شیر پر حملہ کیا۔

افغانستان کی سابقہ حکومت پاکستان پر عموماً یہ الزام لگاتی رہتی تھی کہ وہ طالبان کی مدد کر رہی ہے، جس سے اسلام آباد نے ہمیشہ انکار کیا۔

سابق نائب صدر امراللہ صالح، جو طالبان مخالف فورسز کے رہنماؤں میں شامل ہیں، پاکستان پر ایک عرصے سے سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

کابل میں خواتین کا پاکستان کے خلاف مظاہرہ۔ 7 ستمبر 2021

منگل کے روز کئی درجن خواتین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا جن میں سے کچھ نے ایسے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی مدد سے ان کے بیٹے مار ڈالے ہیں۔

ہفتے کے روز طالبان فورس کے اسپیشل گروپ نے کابل میں اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والی عورتوں کا مظاہرہ ختم کرانے کے لیے ہوا میں فائر کیے۔

منگل کے روز بھی طالبان فورس کے ارکان اس وقت حرکت میں آئے جب مظاہرین صدارتی محل کے قریب پہنچے۔ انہوں ںے ہوا میں گولیاں چلائیں اور مظاہرے کی کوریج کرنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔

)اس خبر کا کچھ مواد رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

02:05 8.9.2021

کیا عالمی برادری طالبان کے وعدوں کا اعتبار کرے گی؟

کابل میں درجنوں خواتین کا مظاہرہ، 7 ستمبر 2021
کابل میں درجنوں خواتین کا مظاہرہ، 7 ستمبر 2021

افغانستان میں طالبان نے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب اپنی ایک عبوری حکومت بھی قائم کرنے کے بعد نگران کابینہ کے چند ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ عالمی برادری ان کے خود کو تبدیل ہونے کے دعوے پر یقین کرکے کیا انہیں انگیج کرے گی یا ان کو جمہوریت، حقوق انسانی اور خواتین سمیت دوسری اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری پر مجبور کرنے کے لئے فی الوقت ان پر دباؤ جاری رکھے گی۔ انہیں خود کو تسلیم کرانے، اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے اور جنگ سے تباہ حال ملک کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے عالمی برادری کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔

ہم نے عالمی امور کے جتنے ماہرین سے اب تک گفتگو کی ہے ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ عالمی برادری کے پاس اس سلسلے میں کچھ زیادہ متبادل راستے موجود نہیں ہیں۔

لارڈ نذیر احمد برطانیہ کے ایک تجربہ کار سیاستداں ہیں اور عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلا شبہ بعض حلقے یہ چاہیں گے کہ طالبان پر دباؤ رکھا جائے۔

بقول ان کے، آج کے حقائق اس بات کے متقاضی ہیں کہ انکے ساتھ مکالمہ جاری رکھا جائے اور انہیں مسلسل انگیج رکھا جائے، کیونکہ ساری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں نئے دہشت گرد گروپ جنم نہ لینے پائیں اور جو گروپ وہاں پہلے سے موجود ہیں ان کو بھی غیر فعال بنایا جائے اور اسکے لئے طالبان کا تعاون اور اس کام میں انکی مدد نا گزیر ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کام طالبان کے ساتھ انگیجمنٹ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

لارڈ نذیر نے کہا کہ مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ دنیا کو دکھائیں کہ جن طالبان کے بارے میں اتنا کچھ کہہ چکے ہیں اب ان ہی کے ساتھ فوری طور پر بات چیت بھی کر رہے ہیں، لیکن آخر کار ہونا یہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض وقت سیاست میں سخت باتیں کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن پھر بتدریج راہیں بھی نکالنی پڑتی ہیں اور یہ ہی بات افغانستان کے سلسلے میں بھی ہوتی نظر آرہی ہے۔

جہانگیر خٹک عالمی امور کے ایک ممتاز تجزیہ کار ہیں اور نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں انکا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ طالبان کا بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑا سوال افغان عوام کا ہے۔ ایک ملک جس کی آبادی 38 ملین سے کچھ زیادہ ہے جس میں آدھے سے کچھ کم لوگ ایسے ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات کی چیزوں سے محروم ہیں، جہان خشک سالی عروج پر ہے اور جہان چالیس فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جہاں کووڈ کے خلاف صرف پانچ فیصد لوگوں کو ویکسین لگ سکی ہے، وہاں پر صرف ایک حکومت کو دیکھنا اور اسکے حوالے سے کسی بھی قسم کی پالیسی سازی کرنا دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔

بقول ان کے، اسی لئے جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے امریکہ سمیت کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ طالبان کے ساتھ قطع تعلق کیا جائے، کیونکہ اس صورت میں خطرہ یہ ہے کہ وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں زیادہ مضبوطی پکڑ سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق مختلف دہشت گرد گروپوں کے ہزاروں مسلح جنگجو آج بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ ان حالات میں اگر آپ قطع تعلق کریں گے اور طالبان کی حکومت کو الگ تھلگ کر دیں گے تو وہ حکومت جس پر پہلے ہی شک ہے کہ اسکے بہت سےدہشت گروپوں سے تعلقات ہیں وہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور اس سے علاقائی اور عالمی سیکیورٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

انکا مزید کہنا تھا کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغانستان ایک بڑے انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ اس سلسلے میں دنیا کو پہلے ہی آگاہ کر چکی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسوقت ایک امتحان درپیش ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ اسکے علاوہ اور کوئی متبادل ہے کہ وہ طالبان کو انگیج کئے بغیر افغانستان میں کسی بہتری کی امید رکھ سکیں۔ یہ مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ مجبوری انسانی لحاظ سے ہے اور ضرورت اسٹریٹیجک لحاظ سے؛ کیونکہ انہیں داعش جیسے گروپوں کو ختم کرنے کے لئے طالبان کی مدد درکار ہو گی۔

ایران افغانستان کا پڑوسی ملک ہے جس کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے۔ ایران میں اس حوالے سے کیا سوچ پائی جاتی ہے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وہاں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر راشد نقوی نے کہا کہ ''ظاہر ہے کہ اسوقت افغانستان کے پڑوسی ممالک کے مفادات یا تحفظات موجود ہیں۔ وہ ایک نئی صورت حال سے دو چار ہیں''۔

بقول ان کے، اس اعتبار سے ایران کی خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہو جس سے پورے خطے میں سیکیورٹی اور سلامتی کی صورت حال بہتر رہے۔ اسی لئے ایران نے طالبان کو انگیج رکھا ہے اور اسوقت بھی سفارتی سرگرمیاں اس حوالے سے جاری ہیں۔ ہمسایہ ممالک کا ایک آن لائن اجلاس بھی ہوا ہے اور ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کا بھی اجلاس ایک آدھ دن میں ہونے والا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ایران اس بارے میں کافی فعال ہے اور انہوں نے کہا کہ آئندہ کے حالات کا انحصار خود طالبان کے رویے پر ہو گا۔

آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر طالبان نے گزشتہ بیس برسوں کے تجربے سے واقعی کوئی سبق سیکھا ہے اور وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہیں تو بلا شبہ حالات بہتری کی جانب مائل ہونگے؛ ورنہ بصورت دیگر کیا ہو گا، یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

03:47 7.9.2021

کیا طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے، مبصرین کی منقسم رائے

ایک طالبان سیکیورٹی چیکننگ کر رہا ہے۔
ایک طالبان سیکیورٹی چیکننگ کر رہا ہے۔

گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان جنگ و جدال کا شکار ہے۔ پہلے 1979 میں اسوقت کی ایک سپر پاور سابقہ سوویت یونین نے بہ زور طاقت افغانستان کو زیرکرنا چاہا۔ لیکن ناکام ہوا اور خود سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس کے بعد مختلف افغان دھڑے آپس میں برسر پیکار رہے۔

امریکہ پر 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان سے پنپنے والی دہشت گردی کو روکنے اور القاعدہ کو جو 9/11 حملوں کی ذمہ دار تھی سزا دینے کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے لشکر کشی کی جس کا سلسلہ تقریباً20 سال جاری رہا۔

اس دوران افغانستان میں مختلف منتخب حکومتیں نظام مملکت چلاتی رہیں لیکن ایک جانب افغان طالبان سرگرم عمل رہے اور دوسری جانب دوسرے دہشت گرد گروپ بھی وہاں فعال رہے۔ اس سارے عرصے میں خونریزی کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ پچھلے سال امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ ہوا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اور امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کردیا۔

انکا موقف تھا کہ ان 20 برسوں کی کارروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ القاعدہ کو اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ آئندہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر دہشت گرد حملے کر سکے اور وہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔

افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت جس کے پاس کوئی تین لاکھ ایسی فوج تھی جس کی بقول ان کے بہترین تربیت کی گئی تھی اور جس کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے، ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ مغربی ممالک کی فوجیں اپنے نئے نظام الاوقات کے مطابق افغانستان سے نکل گئیں اور کوئی دو عشروں کے بعد طالبان ایک بار پھر افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ جنکا دعوی ہے کہ اب وہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں اور انکی سوچ بدل گئی ہے۔

طالبان نے جمہوریت،خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور حقوق انسانی کی پاسداری کے حوالے سے بہت سے وعدے کئے ہیں لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔

عالمی امور کے ماہرین کے درمیان یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرکے انہیں 'انگیج 'کیا جائے اور عالمی برادری کے ملکوں میں انہیں شامل ہونے کا موقع دیا جائے یا انہیں الگ تھلگ کرکے ان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔

پروفیسر حسن عسکری پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار اور عالمی امور کے ماہر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن ملکوں کو نقصان ہوا ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے انہیں تو یقیناً طالبان کو فوری طور پرانگیج کرنے میں تامل ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر افغانستان میں امن اور سکون نہیں ہو گا، خلفشار ہو گا تو وہ سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے، جو کہ پڑوسی ملکوں کے لئے بھی خطرناک صورت حال ہو گی اور بقیہ دنیا کے لئے بھی۔

انہوں کہا کہ طالبان اب یہ اشارے دے رہے ہیں کہ وہ پہلے سے مختلف ہیں۔ وہ بھی دنیا کو انگیج کرنا چاہتے ہیں۔

پروفیسر حسن عسکری نےکہا کہ انکے خیال میں انہیں یہ موقع دیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں پر پورے اترتے ہیں اور کیا وہ اسی طرح دنیا کو انگیج کرتے ہیں جس طرح ایک ذمہ دار ریاست کو کرنا چاہئیے۔ اور اس نقطہ نظر سے انہیں انگیج کرنا مناسب رہے گا۔

انھوں نے کہا کہ ایک آدھ کے علاوہ زیادہ تر پڑوسی ممالک سے تو یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ طالبان کو جو فوری مالی اور سفارتی مدد درکار ہے وہ فراہم کریں گے، کیونکہ اگر افغانستان میں حالات بگڑتے ہیں تو یہی ملک سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ تاہم، انکا کہنا تھا کہ مغربی ملکوں میں اس بارے میں اسوقت ہچکچاہٹ پائی جائے گی اور تنقید بھی کی جائے گی کیونکہ جو بھی حکومت افغانستان میں بنے گی اس میں ہر چند کہ دوسرے لوگ بھی شامل ہونگے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ تقاضے حکومت پورے نہیں کر سکے گی جو مغرب کی نظر میں جمہوریت کے تقاضے ہیں۔ اور مغرب کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں عدم استحکام سےکیا مغرب کو فائدہ پہنچے گا یا وہاں کا استحکام بہتر ہو گا۔

ڈاکٹر راونی ٹھاکر ممتاز بھارتی تجزیہ کار ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر طالبان یہ ثابت نہ کرسکے کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں تو مغربی ملکوں کے لئے انہیں انگیج کرنا مشکل ہو گا۔ لیکن بعض ممالک دو طرفہ تعلقات کی بنیادوں پر انہیں انگیج کریں گے، جیسے، بقول ان کے، اسوقت چین کر رہا ہے، اس کے لیڈروں کے ساتھ انکی ملاقاتیں بھی ہوئیں ہیں۔ اور یہ ہی صورت حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی اس حوالے سے اب اپنی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا جس میں اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ کیا اب بھی افغانستان کی سرزمین سے اسکے خلاف دہشت گردی ہو سکتی ہے یا طالبان اسکی اجازت نہیں دیں گے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بھارت کو اب ریجنل سیکیورٹی وغیرہ پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے اور انتظار کرنا اور دیکھنا چاہئیے کہ چین افغانستان میں ایسا کونسا کام کرسکتا ہے جو امریکہ اور سابق سوویت یونین نہ کر سکے۔

ڈاکٹر حیدر مہدی شارجہ کی امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسوقت طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی اپنانی چاہئیے اور انکے جو اثاثے منجمد کئے گئے ہیں انہیں ریلیز کر دینا چاہئیے۔تاکہ وہ آپنا کام چلا سکیں۔

ڈاکٹر حیدر مہدی کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کو زیادہ دبانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان کے بارے میں کوئی ضمانت دینا مشکل ہوگی کہ وہ کیا کر گزریں گے۔

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG