افغانستان میں سول ایوی ایشن کا نظام زیادہ تر غیر ملکی چلاتے ہیں
امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج اور امریکی شہریوں کی واپسی کے لئے 31 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے اور انخلاء کا کام شد و مد سے جاری ہے اور لوگوں کو افغانستان سے نکال کر قریب واقع ملکوں میں عارضی قیام کرایا جا رہا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں نہ ابھی کوئی باقاعدہ حکومت ہے نہ سیکیورٹی کی کوئی ضمانت ہے، طیاروں کے کابل ایئرپورٹ پر اترنے اور وہاں سے روانہ ہونے میں کتنے خطرات اور چیلنجز ہیں، اس کا اندازہ اس شعبے کے ماہرین ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ فہد ابن مسعود فلائٹ سیفٹی اور سول ایوی ایشن کے ماہر ہیں اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی ایئر لائنز کے لئے بھی کام کرتے ہیں۔
افغانستان کی صورت حال کے پس منظر میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کا سول ایوی ایشن کا نظام بیشتر غیر ملکی ہی چلا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 31 اگست کے بعد شاید صورت حال یہ نہ رہے اور ٹیکنکل عملہ جو پروازوں کو اتروانے اور روانہ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، اتنا تجربہ کار نہ ہو جتنا ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلامک اسٹیٹ (خراسان) کی ملک میں موجودگی سب سے بڑا خطرہ ہے جس نے ایئرپورٹ اور اس کے اطراف حملے کر کے پروازوں کے لئے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں، جن میں ہیومن انٹیلی جنس سے لے کر سگنل انٹیلی جنس تک کا استعمال ضروری ہے۔
طالبان کے قبضے کے بعد خلیجی ممالک میں افغان شہری اہل وطن کے لیے فکرمند
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد دنیا بھر میں افغان باشندے اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہیں۔ نئی افغان حکومت ابھی بنی نہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلد از جلد اپنا ملک چھوڑنے کے لئے بے تاب ہیں۔ مگر پریشانی ان کی بھی کچھ کم نہیں جو ملک سے نکل کر کسی دوسرے محفوظ مقام تک پہنچ گئے ہیں۔
لوگوں کے ملک چھوڑنے کا سلسلہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔
35 سالہ عبادت اپنی دو نو عمر بیٹیوں کے ساتھ افغانستان سے 5 ماہ پہلے خلیج اس وقت پہنچیں جب ان کے علاقے میں بم کے لگاتار دھماکے ہوئے۔
اب وہ متحدہ عرب امارات میں محفوظ ہیں مگر عبادت کو طالبان کے تیزی سے ملک پر قبضے کے بعد وطن میں اپنے اہلِ خانہ کی فکر ہے۔
ان کی تین بہنیں اور والدہ کابل میں رہتی ہیں اور وہ ان کے لئے خوفزدہ ہیں اور فکر مند بھی اور کہتی ہیں کاش وہ انہیں اپنے ساتھ لا پاتیں یا کسی اور محفوظ ملک میں منتقل کر سکتیں۔
متحدہ عرب امارات کے فوجی گزشتہ 20 برس کے دوران جنگ اور افغان فوجیوں کی تربیت کے لئے افغانستان میں موجود رہے ہیں۔ اور اب اس کا کہنا ہے کہ اس نے کم از کم 36,500 لوگوں کے انخلاء میں مدد دی ہے اور اس ہفتے 1500 افغان شہریوں کو ملک میں عارضی رہائش فراہم کی ہے۔
کابل ایئرپورٹ پر راکٹ حملے کے باوجود انخلا کا عمل بلا روک ٹوک جاری
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ پیر کے روز افغانستان میں کابل کے ہوائی اڈے پر راکٹ حملے کے بعد انخلا کا آپریشن بلا تعطل جاری ہے۔
عینی شاہدین نے متعدد راکٹ گرنے کی اطلاع دی ہے جب کہ ایک امریکی اہل کار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ راکٹوں کو میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے روک دیا گیا۔
ایس آئی ٹی ای انٹیلی جنس گروپ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ (داعش خراسان) نے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کو حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ بیان میں صدر بائیڈن کے اس حکم کی دوبارہ تصدیق کی گئی جو انہوں نے امریکی فورسز کی حفاظت کے لیے کمانڈورں کو اپنی کوششیں دو گنا کرنے کے لیے دیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جو بھی ضروری ہو، اسے ترجیج دیں۔
امریکہ، افغانستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی ایک ایسی صورت حال میں منگل کی ڈیڈ لائن سے پہلے کابل سے انخلا مکمل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، جب کہ جمعرات کو ہوائی اڈے کے باہر ایک خودکش حملے میں کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
کابل: امریکی فضائی کارروائی میں عام شہریوں کی بھی ہلاکت
امریکی فوج اتوار کے روز کیے گئے اس فضائی حملے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات کی بھی تحقیقات کر رہی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حملہ حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو داعش سے لاحق خطرے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔
سینٹ کام کے ترجمان، کیپٹن بل اربن نے اتوار کی رات اپنے ایک بیان میں کہا کہ "معصوم جانوں کے کسی بھی ممکنہ نقصان سے ہمیں بہت دکھ ہو گا۔"
اربن نے کہا کہ فضائی حملے کے نتائج کا ابھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہ کہ ثانوی دھماکوں سے "اضافی جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ہوا ہو گا، اور ہم مزید تحقیقات کر رہے ہیں"۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق ڈرون حملے یا ثانوی دھماکوں میں 9 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
امریکی اسپیشل فورسز کے 150 افراد پاکستان پہنچے ہیں: شیخ رشید کی تصدیق
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے لیے اب تک ایئرپورٹس کے ذریعے 1627 اور 2192 افراد طورخم بارڈر کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان آنے والوں کو اُن کی آمد پر ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اسلام آباد کی نور خان ایئر بیس پر امریکی اسپیشل فورسز کے ڈیڑھ سو کے قریب افراد پہنچے ہیں۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ذمے داری کے تحت بڑے انخلا کی تیاری کی تھی۔ اس مقصد کے لیے ہوٹلز اور یونیورسٹیز خالی کروائی گئی تھیں لیکن اس کی ضرورت نہیں پڑی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی یا کوئی بھی ملک کا شخص ہو تو ٹرانزٹ کے لیے سہولت دے رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے ہوسٹلز خالی نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن ہوٹلز پر آن پے منٹ سہولیات دے رہے ہیں۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سیاست پاکستان کے قرب و جوار میں ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست بدلنے جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بھارت کسی بھی دہشت گرد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
شیخ رشید احمد نے افغانستان سے مہاجرین کی آمد کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی ایک شخص کو ریفیوجی اسٹیٹس نہیں دیا گیا۔ افغانستان سے آنے والوں کو جو ویزہ ہم دے رہے ہیں صرف 21 دن کا ہے جس کے بعد اس میں توسیع ہو سکتی ہے لیکن مہاجر کا درجہ کسی کو نہیں دیا جا رہا۔
افغانستان میں موجود پاکستانیوں کے بارے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجود تمام پاکستانیوں کو نکال لیا گیا ہے البتہ وہاں تیس چالیس پاکستانی خاندان ہیں جو خود نکلنا نہیں چاہتے۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے بارے میں یقین دہانی کروائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اس وقت داعش نورستان اور کنڑ کے علاقوں میں موجود ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ڈر ہے کہ ٹی ٹی پی اور داعش مل کر کوئی دہشت گردی کی کارروائی کر سکتی ہیں جسے روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔