رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

02:13 25.8.2021

کیا افغانستان یورپ کے لیے تارکین وطن کا ایک نیا بحران پیدا کرے گا؟

یورپ میں پناہ لینے والا افغان تارکین وطن کا ایک گروپ، فائل فوٹو
یورپ میں پناہ لینے والا افغان تارکین وطن کا ایک گروپ، فائل فوٹو

چھ برس پہلے دنیا کے مختلف حصوں سے 12 لاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن لاکھوں کلو میٹر کا سفر کر کے یورپ میں پناہ کے لئے پہنچے تھے تاکہ سیاسی سطح پر گہرے گھاؤ چھوڑنے والے بحران میں نئی زندگی تلاش کر سکیں۔ اور اب جب لاکھوں افغان باشندے طالبان سے بھاگ رہے ہیں تو سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آیا یورپ کو پناہ گزینوں کے ایک اور بحران کا سامنا ہو گا۔

متعدد یورپی لیڈروں نے حالیہ دنوں میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔

فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے 16 اگست کو ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں کہا تھا کہ طالبان سے بھاگنے والوں سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی طور پر منظم اور منصفانہ کوشش کی ضرورت ہو گی۔

اور ان کے الفاظ میں، ''یورپ اس صورتِ حال کے نتائج تنہا برداشت نہیں کر سکتا''۔

جرمنی میں حکمراں کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے نشریاتی ادارے این ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم اس بارے میں واضح ہیں کہ 2015 کا اعادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم افغانستان کا مسئلہ جرمنی کی جانب ترکِ وطن سے حل نہیں کر سکتے۔"

سن 2015 میں یورپ میں داخل ہونے والوں کی اکثریت شام میں جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کی تھی۔ ترکی میں داخل ہو کر یہ لوگ یورپی یونین کے رکن ملک یونان میں داخل ہو جاتے تھے اور یہ سفر انہیں بلقان یا اس سے بھی پرے مغربی یورپ لے جاتا۔

افغان تارکینِ وطن کے لئے یہی سفر بہت سی رکاوٹیں لئے ہوئے ہے۔ ترکی ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، جب کہ افغان تارکینِ وطن کے یورپ جانے کا یہ مرکزی راستہ ہے۔

اسی طرح یونان نے بھی ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔ بہت سے تارکینِ وطن جو ترکی سے کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچنا چاہتے ہیں وہ گنجایش سے زیادہ بھرے پناہ گزیں کیمپوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان 2016 کے معاہدے نے تارکینِ وطن کے لئے یہ سفر اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔

مزید تفصیلات

01:33 25.8.2021

حقیقت پسندانہ رویہ اپنا کر روس طالبان سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے

روس کی میزبانی میں ماسکو میں طالبان اور افغان گروپس کی کانفرنس۔ 18 مارچ 2021
روس کی میزبانی میں ماسکو میں طالبان اور افغان گروپس کی کانفرنس۔ 18 مارچ 2021

طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد روس اس فکر میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے جنوب میں واقع افغانستان کی اس صورت حال سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس میں مواقع بھی ہیں اور خطرات بھی۔

ہر چند کہ ماسکو نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے روسی حکام طالبان سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں؛ حتیٰ کہ جنگجو گروپ ماسکو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

ایسے ماحول میں جب افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا سے مغربی ممالک پریشان ہیں کہ اسلامی گروپ طالبان کے زیر اثر افغان خواتین اور لڑکیوں کو جبر کا سامنا ہو سکتا ہے، روس بھی صورت حال سے متعلق ایک نرم روی کا انداز اپنائے ہوئے ہے۔

طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے روسی مندوب ایمبیسیڈر واسیلی نیبینزایا نے صورت حال کے متعلق کہا کہ اس سے خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

افغانستان: 'خواتین و نوجوان پریشان ہیں، نیند کی گولیاں لے رہے ہیں'

انہوں نے کہا کہ کابل مین روس کا سفارتخانہ معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ روس کا مفاد افغانستان میں ایک تیزتر پر امن حل، استحکام کے قیام اور جنگ کے بعد ملک کی بحالی سے وابستہ ہے۔

ماسکو میں ماضی کی روسی دراندازی سے بگڑنے والی صورت حال کی بھیانک یاد ابھی تازہ ہے۔

01:18 25.8.2021

وادی پنج شیر جہاں ابھی تک طالبان کی عمل داری قائم نہیں ہو سکی

طالبان مخالف جنگجو وادی پنج شیر میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔ 22 اگست 2021
طالبان مخالف جنگجو وادی پنج شیر میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔ 22 اگست 2021

افغانستان کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کے باوجود وادی پنج شیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اب تک طالبان کی عملداری قائم نہیں ہوسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی سربراہی میں 'افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ' نے طالبان کی پیش قدمی روک دی ہے، اور اطلاعات کے مطابق، انہیں وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

خیال رہے کہ سابقہ دور میں بھی جب احمد شاہ مسعود حیات تھے، طالبان کو کبھی وادی پنج شیر پر کنٹرول حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ تاہم 9/11 کے امریکہ پر حملے سے چند روز پہلے القائدہ کی جانب سے دہشت گردی کے ایک حملے میں انہیں ہلاک کردیا گیا تھا، جس کے بعد صورت حال میں وہ تبدیلی آئی جس کے نتیجے میں طالبان کی اس وقت کی حکومت ختم ہوئی۔

اس وقت بھی کم و بیش وہی صورت حال بن رہی ہے اور اس بار احمد شاہ مسعود کی جگہ انکا بیٹا احمد مسعود مزاحمت کی قیادت کر رہا ہے۔ تاہم، دوسری جانب طالبان کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو لڑائی بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایک جانب تو طالبان نے وادی کو باہر سے اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے اور دوسری جانب وادی کے اندر مزاحمت کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ مزاحمتی فرنٹ کے ترجمانوں کے بقول، وہ جنگ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

فہیم دشتی فرنٹ کے رہنما احمد مسعود کے ایک قریبی معتمد اور ساتھی ہیں۔ وادی پنج شیر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فرنٹ کی کوئی شرائط نہیں ہیں، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ افغانوں کی جو اقدار ہیں، ان کی پاسداری کی جائے۔ ملک میں جمہوریت قائم کی جائے۔ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

مزید تفصیلات

01:02 25.8.2021

'صدر بائیڈن 31 اگست کی ڈیڈ لائن تک انخلا مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں'

کابل ایئر پورٹ پر ایک امریکی فوجی طیارے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ایک بچی کو پانی کی بوتل دے رہا ہے۔ 21 اگست 2021
کابل ایئر پورٹ پر ایک امریکی فوجی طیارے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ایک بچی کو پانی کی بوتل دے رہا ہے۔ 21 اگست 2021

امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے منگل کو کہا کہ صدر جو بائیڈن امریکی فوجیوں کے افغانستان سے نکلنے کی 31 اگست کی آخری تاریخ پر قائم رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس سے قبل، بائیڈن اور گروپ جی سیون کے رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کے لیے ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ کئی رہنماؤں نے ان پر انخلا کے عمل کو آسان بنانے کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ آگے بڑھانے پر زور دیا۔

طالبان ڈیڈ لائن میں توسیع کو مسترد کر چکے ہیں۔

ورچوئل کانفرنس سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا، "میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے کہوں گا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہوں اور مہاجرین اور انسانی امداد کے لیے آگے بڑھیں۔"

انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ میں اب ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، اور ہزاروں مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے شہری اور افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنے والے افغان باشندے اس توقع پر کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ جا رہے ہیں، تاکہ انہیں باحفاظت ملک سے نکالا جا سکے۔

وائٹ ہاؤس نے منگل کی صبح بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 21،600 افراد کو کابل سے نکال لیا گیا ہے، لیکن ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہزاروں اب بھی وہاں موجود ہیں۔

مزید تفصیلات

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG