افغان مہاجرین کے ممکنہ اضافے پر ترکی اور یونان میں تشویش
ترکی کے صدر طیب اردوان اور یونان کے وزیر اعظم افغانستان کی صورت حال پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق دونوں ہمسایہ ملکوں کو، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سے اپنی جانیں بچانے کے لیے نکلنے والے لوگوں کی ممکنہ تعداد پر تشویش ہے۔
ترکی نے اپنے ملک کے راستے سے افغان تارکین وطن کی ممکنہ بڑی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جمعرات کو اردوان نے یورپی ملکوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کو یورپ کا ویئر ہاؤس نہیں بننے دیں گے۔ وہ ان سے خود نمٹیں۔
ترکی میں پناہ گزینوں کی ممکنہ آمد کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ معاشی مشکلات اور بے روزگاری کی بلند سطح ہے۔
صدر اردوان نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا ہے جب ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ترکی اس وقت پہلے ہی تقریباً 50 لاکھ غیرملکی پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، جن میں 35 لاکھ کا تعلق شام اور تین لاکھ کا افغانستان سے ہے۔ جب کہ صرف گیارہ لاکھ غیرملکیوں کے پاس ترکی میں قانونی طور پر رہنے کا اجازت نامہ ہے۔
یونان کے دفاع اور شہری تحفظ کے وزرا ترکی سے ملحق اپنی سرحد کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ وہاں موجود ان سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لے سکیں جن کا بندوبست ڈیڑھ سال قبل تارکین وطن کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا تھا۔
یونان کی حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ وہ 2015 کے اس واقعہ کو دہرانے کی اجازت نہیں دے گا جب ترکی کے ساحلی علاقوں سے ہزاروں تارکین وطن یونانی جزائر میں داخل ہو گئے تھے۔
انخلا کا کام مکمل ہونے تک مشن جاری رہے گا، صدر بائیڈن
صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ جولائی سے اب تک 18000 سے زائد افراد کو افغانستان سے نکالا جا چکا ہے، جن میں امریکی شہری، اور 20 سال تک امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کا کام اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ مشن مکمل نہیں ہو جاتا۔
جمعے کے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر نے کہا کہ طالبان سے رابطے کے دوران ان پر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جن حضرات کے پاس پاسپورٹ اور قانونی کاغذات ہیں انھیں کابل ہوائی اڈے تک پہنچنے سے نہ روکا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں طالبان اب تک تعاون کر رہے ہیں، اور امریکہ نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ کسی رکاوٹ کی صورت میں سخت رد عمل کے لیے تیار رہیں۔
صدر نے کہا کہ ان تمام افراد کو افغانستان سےباہر نکالا جا رہاہے جن کی جان کو خطرہ لاحق ہے، 'ان میں خواتین راہنما اور صحافی بھی شامل ہیں''۔
انھوں نے کہا کہ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل کی انتظامیہ سے قریبی رابطہ ہے اور افغانستان سے ان اخباری اداروں سے وابستہ 204 ملازمین کے انخلا کا عمل مکمل کیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، صدر نے کہا کہ ''افغانستان میں داعش طالبان کی سخت دشمن ہے''۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا انخلا ہے اور واحد ملک جو دنیا کے اس پار سے اتنی قوت اور انتہائی درست طریقے سے اس سطح کی کارروائی کر سکتا ہے وہ امریکہ ہے۔ 14 اگست کے بعد سے ہم 18,000 لوگوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں اور جولائی کے بعد سے یہ تعداد لگ بھگ 30,000 ہے اور ایک ہزار سے زیادہ امریکی حکومت کی مدد سے نجی اور خصوصی پروازوں کے ذریعے نکالے گئے ہیں۔ اس تعداد میں امریکی شہری، افغان شہری اور سپیشل امیگریشن ویزا (ایس آئی وی) کے ذریعے درخواست دینے والے اور ان کے اہلِ خانہ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہونا چاہئے کہ انخلا کا یہ مشن خطرناک ہے اور اس سے ہماری مسلح فورسز کو بھی خطرہ ہے۔ اور یہ مشکل حالات میں جاری ہے۔ میں یہ یقین نہیں دلا سکتا کہ حتمی نتیجہ کیا ہوگا مگر 'کمانڈر ان چیف' کی حیثیت سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں تمام ضروری وسائل استعمال کروں گا۔
کابل سے انخلا کی پروازیں یورپ تک بڑھا دی گئیں
پنٹاگان میں ایک بریفنگ کے دوران آرمی کے میجر جنرل ولیم ٹیلر نے امریکی فوج کے جوائٹ سٹاف کے ساتھ کہا کہ امریکہ اپنے نیٹو اتحادی جرمنی کا انخلا کی عالمی کوشش میں معاونت فراہم کرنے پر شکرگزار ہے ۔
امریکی حکام نے جمعہ کے روز رائٹرز کو بتایا کہ کابل سے لوگوں کو مشرق وسطیٰ منتقل کیا جا رہا تھا، جہاں اس کے سب سے بڑے فوجی اڈے میں اب گنجائش ختم ہو رہی ہے۔
امریکی حکام انخلا کرنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر متبادل مقامات پر بھی غور کر رہے تھے جہاں ان کی خصوصی امیگریشن کی دستاویزات کا پراسس مکمل ہونے تک وہ عارضی قیام کر سکیں۔
متحدہ عرب امارت اور دوسری کئی ملک امریکہ کو یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کو عارضی قیام فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم حکام کے خیال میں لاجسٹک اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے یورپی مقامات بہتر ہیں۔
امریکہ افغانستان سے ہزاروں لوگوں کو نکالنے کی اپنی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے، کیونکہ امریکی قیادت والی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندوں کے خلاف طالبان کی انتقامی کارروائیوں کی اطلاعات میں اضافے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تاہم عہدیداروں نے بتایا کہ جمعہ کے روز کئی گھنٹوں تک انخلا کی پروازیں کابل سے نہیں روانہ ہو سکیں تھیں، کیونکہ قطر کے الحدید ایئر بیس پر، جو وہاں امریکی فورسز کا مرکز ہے، منتقل کیے جانے والے لوگوں کا ہجوم ہو گیا تھا، جہاں پہلے ہی 8000 افغان باشندوں کو عارضی پناہ فراہم کی گئی ہے۔ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ انخلا کی پروازوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
نیٹو کے مطابق، طالبان عسکریت پسندوں کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے جمعے تک 18 ہزار سے زائد افراد کو بیرون ملک منتقل کیا جا چکا ہے۔
افغانستان کے حالات و واقعات بیان کرنے والے نو مقبول ناول
افغانستان کا نام سنتے ہی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں جہاں جنگ و جدل کا خیال آتا ہے وہیں لٹریچر سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ملک ایک مختلف حیثیت رکھتا ہے۔
انگریزی لٹریچر کی بے شمار کتابوں میں افغانستان کا موضوع زینت بنا ہے جن میں افغان جنگ اور اس سے جُڑی متعدد کہانیاں بیان کی گئی ہے۔
سن 1887 میں شائع ہونے والے ناول 'اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ' میں پہلی بار مشہور سراغ رساں شرلوک ہومز کی ملاقات دوسری افغان جنگ سے واپس آنے والے ڈاکٹر جان واٹسن سے ہوتی ہے اور شرلوک ہومز انہیں دیکھتے ہی یہ بھانپ لیتے ہیں کہ ڈاکٹر واٹسن حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے ہیں۔
اگر ڈاکٹر واٹسن دوسری افغان جنگ میں نہ جاتے تو وہ رہائش کے لیے کبھی بھی شرلوک ہومز سے نہ ملتے اور شرلوک ہومز کی کہانیاں قارئین تک نہ پہنچتیں کیوں کہ مصنف سر آرتھر کونن ڈوئل نے بھی ڈاکٹر واٹسن ہی کو راوی بنا کر متعدد کہانیاں اور ناول لکھے ہیں۔