رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

22:49 16.8.2021

کیا طالبان افغان خواتین کو ملنے والے حقوق برقرار رکھیں گے؟

کابل میں افغان خواتین نے ایک ہال میں جمع ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ 2 اگست 2021
کابل میں افغان خواتین نے ایک ہال میں جمع ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ 2 اگست 2021

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ظاہر کی جارہی ہے کہ اب وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال خطرے میں پڑ سکتی ہے خاص طور پر خواتین کے حقوق جو انہوں نے 20 برس کی جدوجہد کے بعد حاصل کئے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کابل میں خواتین سے بات کی ہے کہ افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد وہ کس ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہیں۔

عائشہ خرم نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پہلی رات انہوں نے آنکھوں میں کاٹ دی۔ جب کہ پورا دن،" گولیوں کی آوازیں اور لوگوں کے انخلاء کے طیارے خاموشی کو چیرتے رہے۔ ہماری روح اور حوصلہ چور چور ہو گیا ہے۔"

پیر کے روز طالبان جنگجوؤں کے کابل اور خود ان کے علاقے پر بلا روک ٹوک قبضے کے بعد، عائشہ نے ٹوئٹر اور دیگر پیغامات کے ذریعے بتایا کہ پوری قوم کے لئے یہ قیامت کا دن تھا جب پلک جھپکتے میں ہر چیز ڈھیر ہو گئی۔

22 سالہ عائشہ خرم اقوامِ متحدہ میں نوجوانوں کی نمائندہ رہ چکی ہیں اور چند ماہ میں کابل یونیورسٹی سے گریجوایٹ ہونے والی ہیں۔

مگر اب دیگر افغان طلباء کی طرح انہیں بھی اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ دنیا اور افغان لیڈروں نے ظالمانہ طریقے سے افغان نوجوان نسل کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور ان کے الفاظ میں، "یہ ان تعلیم یافتہ خواتین کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے جنہوں نے خود اپنے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کا سپنا دیکھا تھا۔"

افغانستان پر قبضے کے دوران ہفتوں کے اس عرصے میں طالبان قیادت نے کوشش کی ہے کہ اپنے 1996 سے 2001 کے دور کے مقابلے میں اپنا ایک نسبتاً نرم تصور پیش کر سکیں۔

تاہم خواتین ایسی یقین دہانیوں سے مطمئن نظر نہیں آتیں۔

22:30 16.8.2021

افغانستان کی صورت حال کو سمجھنے میں سب سے غلطی ہوئی، جرمن وزیر خارجہ

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس، فائل فوٹو
جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس، فائل فوٹو

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے پیر کے روز کہا ہے کہ جرمنی کی حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کے متعلق اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی ہے۔

جرمن وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ کابل سے آنے والی خبریں بہت تکلیف دہ ہیں، اور ان کی حکومت افغانستان سے جس حد تک ممکن ہے، لوگوں کو نکالنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہی ہے جو اس کے اختیار میں ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کے لیے کام کرنے والے تقریباً 2500 افراد جن کی نشاندہی افغانستان سے نکالے جانے والے افراد کے طورپر کی گئی تھی، ان میں سے 1900 کو پہلے ہی جرمنی لایا جا چکا ہے۔

ماس کا مزید کہناتھا کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ باقی رہ جانے والے 600 افراد کے علاوہ مزید 2000 افراد ایسے ہیں جنہیں وہاں سے نکالنے کی ذمہ داری جرمنی پر عائد ہوتی ہے، مثلاً انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن اور ان کے خاندان وغیرہ۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں اپنے گھروں، یا ان جگہوں سے جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی ہے، جرمنی بھیجنے کے لیے کس طرح بحفاظت ائیر پورٹ پر پہنچایا جائے۔

21:46 16.8.2021

چین کا کابل میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھے کا اعلان، تعمیر نو میں مدد کی پیش کش

فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین نے کہا ہے کہ کابل میں اس کا سفارت خانہ کھلا ہے اور چین اس ملک کی تعمیرِ نو کی کوششوں میں مدد کے لیے تیار ہے۔

روس نے بھی کہا ہے کہ کابل میں ان کا سفارت خانہ بدستور کام کرتا رہے گا۔

چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا چین طالبان حکومت کو تسلیم کر لے گا تاہم کہا کہ چین افغان عوام کے انتخاب کا احترام کرے گا۔

انہوں نے باور کروایا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی اسلامی حکومت کے قیام کے لئے بات چیت کریں گے جو سب کی ترجمان ہو اور افغان عوام اور غیر ملکی مشنز کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین کو امید ہے کہ اس سے افغانستان میں صورتِ حال کی پر امن تبدیلی میں مدد ملے گی۔

21:19 16.8.2021

صدر بائیڈن پیر کی سہ پہر افغانستان کی صورت حال پرخطاب کریں گے

صدر جو بائیڈن، فائل فوٹو
صدر جو بائیڈن، فائل فوٹو

واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر میں بتایا گیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن امریکہ کے ایسٹرن ٹائم کے مطابق افغانستان کی صورت حال پر خطاب کریں گے ۔

اخبار کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے کیمپ ڈیوڈ آفس سے ہونے والی اس تقریر میں ممکنہ طور پر کابل میں اشرف غنی کی حکومت کے گرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، ایئرپورٹ پر افراتفری اور انخلا سے منسلک واقعات پر گفتگو ہو گی۔

اخبار کے مطابق، صدر بائیڈن پر جنہوں نے افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین 20 سالہ جنگ ختم کر کے اپنے تمام فوجی 31 اگست تک ملک میں واپس لانے کا اعلان کیا ہے، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے تناظر میں شدید دباؤ ہے۔

امریکہ نے کابل سے اپنے سفارت کار، سویلینز اور امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کی بیرون ملک تیزی سے بحفاظت منتقلی کے لیے اپنے ہزاروں فوجی افغانستان بھیجے دیے ہیں۔

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG