ملالہ کا خواتین اور اقلیتوں کی حفاظت کے لیے تشویش کا اظہار
خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کے حق کے لیے سرگرم نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے پر خواتین اور اقلیتوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ملالہ نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں اور مہاجرین کے تحفظ کے اقدامات کیے جائیں۔
ملالہ کا کہنا ہے کہ طالبان کا افغانستان کا کنٹرول سنبھالنا ان کے لیے پریشان کن ہے۔ خواتین، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے تحفظ کے بارے میں انہیں سخت تشویش ہے۔
ملالہ نے مزید کہا کہ عالمی، علاقائی اور مقامی قوتوں کو افغانستان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انسانی ہمدردی کے تحت فوری امداد فراہم کرنی چاہیے اور مہاجرین اور عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
کابل کے ہوائی اڈے پر دوسرے روز بھی افراتفری
کابل کے ہوائی اڈے پر دوسرے روز بھی افراتفری کے مناظر ہیں۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ہزاروں ملکی و غیر ملکی شہری افغانستان سے نکلنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔ لوگ ایئرپورٹ کی دیواریں پھلانگ کر داخل ہو رہے ہیں اور طیاروں سے لٹک کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کابل ایئرپورٹ پر بیرونِ ملک جانے والوں کا رش
طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ: کون سے رہنما اہم، قیادت کس کے ہاتھوں میں ہے؟
افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ابھی جاری ہی تھا کہ کابل طالبان کے قبضے میں آ گیا اور اس بڑی پیش رفت کے بعد اب افغانستان کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔
امریکہ ہنگامی بنیادوں پر کابل سے سفارتی عملے کو نکال رہا ہے جب کہ افغان صدر اشرف غنی مستعفی ہو کر ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ طالبان کی قیادت کون کر رہا ہے، کون کس عہدے پر فائز ہے اور طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہے؟
طالبان کا قیام روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد عمل میں آیا تھا اور 1996 میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد ملا محمد عمر طالبان کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے تھے۔
طالبان ملا عمر کو اپنی خود ساختہ ریاست 'اماراتِ اسلامی افغانستان' کے 'امیر المومنین' قرار دیتے تھے۔
طالبان کے سربراہ ہونے کے باوجود ملا عمر کی تصاویر یا ویڈیوز دستیاب نہیں۔ وہ 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد بھی طالبان کے سربراہ رہے۔