واشنگٹن —
اقوام ِمتحدہ کی عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدر براہیمی نے منگل کے روز شامی حکومت اور شام کی اپوزیشن کے وفود سے ملاقات کی۔
مگر یہ مذاکرات دونوں فریقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بعد دوپہر سے پہلے ہی ختم ہو گئے۔
لخدر براہیمی نے میٹنگ کے ختم ہونے کے بعد اخباری نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ، ’مذاکرات کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی ہے۔ یقیناً معاملات درست سمت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دونوں فریقوں کی مدد حاصل ہو‘۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے وفد کے مطابق کوئی ایجنڈا طے نہیں پایا ہے اور یہ کہ شام کی حکومت نے اپوزیشن پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
رائٹرز کے مطابق شام کے ڈپٹی وزیر ِخارجہ فیصل میکداد نے میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، ’آج کے دن بھی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ اس میٹنگ میں اپوزیشن شام میں جاری دہشت گردی کو ماننے کو تیار نہیں اور اس پر بات کرنے کو بھی راضی نہیں ہے‘۔
شام کے اپوزیشن کے وفد کے ترجمان مونزر اک بیک کا کہنا تھا کہ پیر کے روز لخدر براہیمی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ان کے وفد نے یہ واضح کیا کہ وہ شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔
منگل کے روز ہونے والی میٹنگ سے پہلے اُن لوگوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جو شام کی تین سالہ خانہ جنگی کے دوران مارے گئے۔
جینیوا میں ہونے والی اس میٹنگ کے دوسرے روز مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ لخدر براہیمی کی کوشش ہے کہ دونوں فریقوں کو تین سالہ خانہ جنگی کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام پر راضی کرلیں۔
لخدر براہیمی نے پیر کے روز دونوں فریقوں سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔
واضح رہے کہ اقوام ِ متحدہ کے عرب لیگ کے لیے خصوصی نمائندے لخدر براہیمی نے گذشتہ ماہ بھی شام کی حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ اس طرز کے مذاکرات کیے تھے جس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی تھی۔
حکومت اور اپوزیشن نے حمص میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقتی طور پر لڑائی روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کو امید ہے کہ اس سے علاقے میں خوراک کی مزید فراہمی ممکن ہو سکے گی اور وہاں پر محصور شہریوں تک امداد پہنچائی جا سکے گی۔
جمعرات کے بعد سے اب تک باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقوں میں موجود حمص شہر سے تقریباً 800 افراد کو باہر نکالا جا چکا ہے۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011ء میں ہوا تھا۔ تب سے اب تک اس لڑائی میں تقریباً 130,000 لوگ مارے جا چکے ہیں اور تقریباً 9 ملین افراد نقل ِ مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
مگر یہ مذاکرات دونوں فریقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بعد دوپہر سے پہلے ہی ختم ہو گئے۔
لخدر براہیمی نے میٹنگ کے ختم ہونے کے بعد اخباری نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ، ’مذاکرات کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی ہے۔ یقیناً معاملات درست سمت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دونوں فریقوں کی مدد حاصل ہو‘۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے وفد کے مطابق کوئی ایجنڈا طے نہیں پایا ہے اور یہ کہ شام کی حکومت نے اپوزیشن پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
رائٹرز کے مطابق شام کے ڈپٹی وزیر ِخارجہ فیصل میکداد نے میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، ’آج کے دن بھی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ اس میٹنگ میں اپوزیشن شام میں جاری دہشت گردی کو ماننے کو تیار نہیں اور اس پر بات کرنے کو بھی راضی نہیں ہے‘۔
شام کے اپوزیشن کے وفد کے ترجمان مونزر اک بیک کا کہنا تھا کہ پیر کے روز لخدر براہیمی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ان کے وفد نے یہ واضح کیا کہ وہ شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔
منگل کے روز ہونے والی میٹنگ سے پہلے اُن لوگوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جو شام کی تین سالہ خانہ جنگی کے دوران مارے گئے۔
جینیوا میں ہونے والی اس میٹنگ کے دوسرے روز مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ لخدر براہیمی کی کوشش ہے کہ دونوں فریقوں کو تین سالہ خانہ جنگی کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام پر راضی کرلیں۔
لخدر براہیمی نے پیر کے روز دونوں فریقوں سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔
واضح رہے کہ اقوام ِ متحدہ کے عرب لیگ کے لیے خصوصی نمائندے لخدر براہیمی نے گذشتہ ماہ بھی شام کی حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ اس طرز کے مذاکرات کیے تھے جس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی تھی۔
حکومت اور اپوزیشن نے حمص میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقتی طور پر لڑائی روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کو امید ہے کہ اس سے علاقے میں خوراک کی مزید فراہمی ممکن ہو سکے گی اور وہاں پر محصور شہریوں تک امداد پہنچائی جا سکے گی۔
جمعرات کے بعد سے اب تک باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقوں میں موجود حمص شہر سے تقریباً 800 افراد کو باہر نکالا جا چکا ہے۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011ء میں ہوا تھا۔ تب سے اب تک اس لڑائی میں تقریباً 130,000 لوگ مارے جا چکے ہیں اور تقریباً 9 ملین افراد نقل ِ مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔