رسائی کے لنکس

شام میں جنگ سے پناہ گزینوں کے درجنوں طبی مراکز بند ہو گئے


ترکی اور شام کی فورسز کے درمیان شدت آنے سے سرحد کے پاس کیمپوں میں موجود پناہ گزینوں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں پناہ گزین دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
ترکی اور شام کی فورسز کے درمیان شدت آنے سے سرحد کے پاس کیمپوں میں موجود پناہ گزینوں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں پناہ گزین دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔

ایک ایسے موقع پر جب شام میں حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیاں لڑائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شام کے ادلب صوبے میں بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگ صحت کی دیکھ بھال کی سہولتیں حاصل کرنے سے محروم ہیں کیونکہ صحت کے درجنوں مراکز تباہ ہونے سے طبی سازوسامان کی کمی پیدا ہو گئی ہے۔

جنگ کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ شہریوں نے انتہائی پریشان کن حالات میں ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب پناہ لے رکھی ہے جہاں گنجائش سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔

روس کی پشت پناہی میں شامی افواج نے گولہ باری اور فضائی حملے تیز کر دیے ہیں, تاکہ شمالی شام میں باغی گروپوں سے ادلب کو واپس لیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں لوگ جان بچا کر بھاگ رہے ہیں. لیکن، ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

ترکی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدوں کو نہیں کھول رہا، جس کی وجہ سے وہ اس علاقے کے قریب محصور ہیں جہاں بمباری ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت سے منسلک عہدے دار کرسچین لنڈ میئر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بہت کم پناہ گاہیں دستیاب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق، تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار لوگ جو ابھی بے گھر ہوئے ہیں، کھلےآسمان تلے رات گزار رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کم سے کم ایک لاکھ بچوں کو منفی درجہ حرارت کا سامنا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کم سے کم نو لاکھ بچے سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے ترکی سے ادلب اور حلب کے لیے سرحد سے آر پار دو روزہ آپریشن کے دوران سات ٹرک بھیجے ہیں جن میں 55 ٹن دوائیں اور طبی ساز و سامان موجود ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس ساز و سامان کی مدد سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ بیماروں کا علاج کیا جا سکے گا لیکن یہ پھر بھی ضرورت سے کم ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے عہدے دار، لونڈ میئر کا کہنا ہے کہ دسمبر میں، جب سے ادلب میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے، صحت کے 84 مراکز اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور صرف 31 مراکز ایسے ہیں جو لڑائی والے علاقوں سے نئی جگہوں پر منتقل ہونے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

لونڈ میئر کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ 33 ہزار سے زیادہ مریضوں کو تشخیص کی سہولتیں دستیاب نہیں ہو سکیں گی۔ فوری نوعیت کے 11 ہزار مریض علاج سے محروم ہو جائیں گے اور 1500 کی سرجری نہیں کی جا سکے گی۔

حال ہی میں جو طبی ساز و سامان جو ادلب بھیجا گیا ہے وہ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کام کرنے والی تنظمیوں کو دیا جا رہا ہے جو شام کے پورے شمال مغرب کے علاقے میں مصروف ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، ہنگامی کیسز اور سانس کی نالیوں میں انفکشن میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

دواؤں کی باقاعدہ بنیاد پر دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ دل کے امراض اور دوسری بیماریوں اور ذیا بیطس کی پیچیدگیوں کے شکار پائے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG