رسائی کے لنکس

ایک ہفتے میں 'جنگ بندی' پر عمل مشکل ہے: بشار الاسد


شام کے صدر بشار الاسد
شام کے صدر بشار الاسد

ان کا کہنا تھا کہ "دہشت گردوں سے کون بات کرے گا، اگر ایک دہشت گرد گروپ جنگ بندی کو مسترد کرتا ہے تو کون اسے ذمہ دار ٹھہرائے گا؟"

شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ کسی بھی جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں کہ ہر فریق کو ہتھیاروں کا استعمال روکنا ہو گا اور کوئی بھی اس قابل نہیں کہ ایک ہفتے میں ان تمام شرائط پر پورا اتر سکے۔

گزشتہ ہفتے ہی 17 ملکی سیریئن اسپورٹ گروپ نے شام میں جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر عملدرآمد ایک ہفتے میں شروع ہو سکتا ہے۔

تاہم پیر کو ٹی وی پر اپنے ایک بیان میں صدر اسد نے اس بارے میں اپنے شک و شبہات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ "جنگ بندی اور کارروائیوں بند کرنا، اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر فریق ہتھیاروں کو استعمال بند کر دے گا۔"

"جنگ بندی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں دہشت گردوں کو مستحکم ہونے سے روکنا، ہتھیاروں، سازو سامان اور جنگجووں کی نقل و حرکت کو روکنا یا ان کی پوزیشنز کو مستحکم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔"

گزشتہ جمعہ کو عالمی طاقتوں کی طرف سے شام میں "مخاصمانہ کارروائیوں" کی بندش پر اتفاق کے باوجود خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں سرکاری فورسز کی روسی فضائیہ کی مدد سے کارروائیاں جاری ہیں۔

صدر اسد کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے بہت سے سوالات ہیں جن میں دہشت گردوں کا تعین کرنا بھی شامل ہے جو ان کے بقول ہر وہ شخص جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، دہشت گرد ہے۔

"کسی مقصد یا وقت کے بغیر جنگ بندی نہیں ہو سکتی۔ وہ [سیریئن اسپورٹ گروپ] یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ہفتے میں جنگ بندی چاہتے ہیں۔ یہ تمام شرائط اور ضروریات ایک ہفتے میں مجتمع کرنے کے قابل ہے، کوئی بھی نہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "دہشت گردوں سے کون بات کرے گا، اگر ایک دہشت گرد گروپ جنگ بندی کو مسترد کرتا ہے تو کون اسے ذمہ دار ٹھہرائے گا؟"

2011ء میں صدر بشارالاسد کے خلاف ملک میں تحریک شروع ہوئی جو بعد ازاں مسلح جدو جہد میں تبدیل ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

اسد حکومت باغیوں کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتی ہے اور ان کے خلاف سرکاری فورسز کارروائیاں کرتی آ رہی ہیں۔

بین الاقوامی گروپ کی طرف سے مجوزہ جنگ بندی کا مقصد شام میں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بناتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انتہائی ضروری امداد کو متاثرہ علاقوں تک پہنچانا اور ملک میں مصالحتی عمل کو تقویت دینا تھا۔

لیکن شامی صدر کا کہنا تھا کہ مصالحت کا کوئی بھی عمل ملک کے موجودہ آئین کے تحت ہونا چاہیے۔

ادھر شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیافاں دی مستورا پیر کو دیر گئے دمشق پہنچے ہیں جہاں مذاکراتی عمل کے لیے مختلف فریقوں سے ان کی ملاقاتیں متوقع ہیں۔

شام کی حکومت اور دیگر گروپوں کے درمیان امن بات چیت 25 فروری کو ہونے جا رہی ہے جس کا اہتمام اقوام متحدہ نے کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG