اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ نے شام میں اسپتالوں سمیت مختلف شہری اہداف پر شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے نئے فضائی حملوں کی سخت مذمت کی ہے جن میں اقوامِ متحدہ کے مطابق 50 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پیر کو شام کے مختلف مقامات پر کیے جانے والے فضائی حملوں اور ان میں عام شہریوں کی ہلاکت پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
عالمی ادارے کے ایک ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حلب اور ادلب میں تین اسپتالوں اور دو اسکولوں پر فضائی حملوں اور ان میں کئی بچوں سمیت 50 سے زائد عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات نے سیکریٹری جنرل کو انتہائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
ترجمان کے مطابق اس نوعیت کے حملے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں جنہوں نے ان وعدوں پر عمل درآمد سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں جو 'انٹرنیشنل سیریا سپورٹ گروپ' کے گزشتہ ہفتے میونخ میں ہونے والے اجلاس میں کیے گئے تھے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی پیر کو کیے جانے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کا ذمہ دار شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو قرار دیا ہے۔
محکمے کے ترجمان جان کربی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے شام میں شہریوں کو نشانہ نہ بنانے کے مسلسل مطالبات کے باوجود ان حملوں کا جاری رہنا قابلِ تشویش ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کے اپنے ہی شہریوں کے خلاف جاری مظالم کو روکنے سے متعلق روس کی اہلیت اور نیت پر سوال کھڑے کردیے ہیں۔
بیان میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر تنازع کے تمام فریقین سے عام شہریوں کو نشانہ نہ بنانے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم افراد تک امداد پہنچانے کی اجازت دینے کی اپیل کر رہا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران فیڈریکا موغیرینی نے بھی شام میں بین الاقوامی امدادی ادارے 'ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' کے زیرِ انتظام اسپتال پر بمباری کی سخت مذمت کی ہے۔
امدادی اہلکاروں کا کہناہے کہ پیر کو شام کے مختلف قصبوں میں کم از کم تین اسپتالوں اور دو اسکولوں پر شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے بمباری کی ہے۔
حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شامی قصبے اعزاز میں ایک اسکول اور بچوں کا ایک اسپتال میزائل حملوں کا نشانہ بنے ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم 14 افراد مارے گئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق اسکول میں ان بےگھر شامی باشندوں کا رہائشی کیمپ قائم تھا جو نزدیکی علاقوں میں شامی حکومت کے اتحادی کرد جنگجووں کی پیش قدمی کے باعث اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
مقامی رہائشیوں کے مطابق اعزاز کے قصبے کے جنوب میں واقع پناہ گزینوں کے ایک اور کیمپ اور نزدیک سے گزرنے والے ٹرکوں کے ایک قافلے پر بھی بمباری کی گئی ہے۔
اس سے قبل شام کے شمال مغربی صوبے ادلب کے قصبے مراۃ النعمان میں واقع ایک اور اسپتال پر پیر کو مبینہ طور پر روسی طیاروں نے بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسپتال غیر ملکی امدادی تنظیم 'ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' کے زیرِ انتظام چلایا جارہا تھا جس کے صدر میگو ٹرزیان نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اسپتال کے عملے کے افراد اور مریض شامل ہیں۔
ان کے مطابق حملے کے بعد سے امدادی تنظیم کے آٹھ اہلکار لاپتا ہیں جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
میگو ٹرزیان نے حملے کا الزام شامی حکومت اور روس پر عائد کیا ہے جس کے طیارے گزشتہ کئی ماہ سے شام میں حکومت مخالف باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں اور اہداف پر بمباری کر رہے ہیں۔
شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق پیر کو مراۃ النعمان کے شمالی کونے پر واقع ایک اور اسپتال پر بھی بمباری کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اسپتال کی دو نرسیں ہلاک ہوگئی ہیں۔