خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی ضلعے سوات کی تحصیل مٹہ کے ایک گاؤں میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک مقامی صحافی جاوید اللہ کو منگل کی شام فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
جاوید اللہ اسلام آباد سمیت کئی شہروں سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ اوصاف کے ساتھ بطور نمائندہ منسلک تھے۔
وہ ٹی وی چینل، الجزیرہ سے منسلک صحافی حمید اللہ کے چھوٹے بھائی تھے۔
مقامی پولیس اہلکاروں کے مطابق، جاوید اللہ کو منگل کی شام انکے گھر کے قریب گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
واقعے کے بعد پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ مگر کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
سال 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیت اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مظفر علی خان اسی خاندان کے پہلے فرد تھے جنھیں چھ دیگر ساتھیوں سمیت نا معلوم عسکریت پسندوں نے دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ابھی تک اس خاندان کے 12 افراد نامعلوم افراد کے ہاتھوں پراسرار طور پر قتل کیے جا چکے ہیں۔
سوات 2006 سے 2009 تک دہشتگردوں کا مضبوط گڑھ تھا اور 2009 میں وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت نے یہاں پر فوجی کارروائی کرکے عسکریت پسندوں کو بھگانے پر مجبور کر دیا، مگر ابھی تک اس علاقے میں فوجی کارروائی کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد کو گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔ قتل کے ان پر اسرار واقعات کا سب سے زیادہ نقصان عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما مظفر علی خان کے خاندان کا ہی ہوا ہے۔ جاوید اللہ مظفر علی خان کا بھتیجا تھا۔
ایس پی اپر سوات، بخت زادہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تک نہ تو مقدمہ درج کیا گیا ہے اور نہ ہی لواحقین نے کسی کو نامزد کیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا تعلق بھی ضلع سوات کی تحصیل مٹہ ہی سے ہے۔