چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کٹاس راج کا مندر صرف ہندوؤں کی ثقافت نہیں بلکہ پاکستان کا قومی ورثہ ہے۔ ہندو بھی اس ملک کے شہری ہیں لیکن ہم ان کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب کے شہر چکوال کے قریب واقع کٹاس راج مندر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیے۔
سپریم کورٹ نے کٹاس راج مندر کے ساتھ موجود تالاب خشک ہونے اور اس کی بحالی کے لیے کوئی اقدامات نہ کرنے پر ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔
جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت میں پنجاب حکومت اور ڈی سی او چکوال نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس مسئلے کا حل چاہیے۔
دورانِ سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ علاقے میں موجود سیمنٹ فیکٹریوں کے پانی کا استعمال پورے چکوال شہر کی آبادی سے زیادہ ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سیمنٹ فیکٹریوں کو نوٹس جاری کردیتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو چاروں چیف سیکریٹریز اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو بھی طلب کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مندر صرف ہندوؤٖں کی ثقافت نہیں ہے بلکہ ہمارا قومی ورثہ ہے۔ ہمیں ماہرین کی خدمات لینا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کیس کی ہنگامی بنیادوں پر سماعت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کٹاس راج مندر کے تالاب کو ہر صورت بھرنا ہو گا،یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پانی کے لیے اگر مشکیں بھر کر لانی ہیں تو لائیں۔ پنجاب حکومت اس بارے میں ایک ہفتے کے اندر تجاویز دے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں مقدمے میں عدالت کا معاون مقرر کردیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد مسئلے کا حل نکالنا ہے۔ اگر 10 کنویں یا سیمنٹ فیکٹری کی کھپت بھی بند کرنا پڑے تو بھی کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے موٹروے سے گزرتے ہوئے دیکھا تو علاقے کے آدھے سے زیادہ پہاڑ کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فیکٹریوں کو نہیں بننا چاہیے، لیکن فیکٹریاں ایسی جگہ لگانی چاہئیں جہاں عام شہریوں کو مشکلات نہ ہوں۔
عدالت نے از خود نوٹس کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔
کٹاس مندر چکوال سے 25 کلومیٹر دور سلسلہ کوہِ نمکیں میں واقع ہندؤں کا ایک مقدس مقام ہے، جسے کٹاس راج بھی کہتے ہیں۔
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق کٹاس تالاب شیو دیوتا کے آنسو سے بنا تھا اور وہ شیو دیوتا کی عبادت کے لیے مخصوص تھا۔ تقسیمِ برِ صغیر کے بعد ہندوؤں کے اس علاقے سے ہجرت کرجانے کے بعد یہ مندر اب ویران ہوگیا ہے۔