رسائی کے لنکس

ایڈز کا عالمی دن: لاڑکانہ میں اب بھی کیس کیوں رپورٹ ہو رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

رتو ڈیرو کے 60 سالہ رہائشی دُر محمد بیٹی کے انتقال کے بعد سے اپنے کمسن نواسے کو پال رہے ہیں۔ در محمد کی بیٹی شمشاد گزشتہ برس ایڈز جیسی مہلک بیماری کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔

شمشاد کے شوہر نے اس ڈر سے کمسن کو نانا کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ کہیں وہ بھی ایڈز کا شکار نہ ہو جائے۔

ایڈز کی وجہ سے شمشاد کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر نے پلٹ کر بیٹے کی خبر تک نہ لی اور اب در محمد ہی نواسے کو پال پوس رہے ہیں۔

دُر محمد کے گھرانے کے ایک دو نہیں بلکہ آٹھ افراد ایڈز کا شکار ہو چکے ہیں جن میں چھوٹے بچے، خواتین اور نوجوان بھی شامل ہیں۔ جس گاؤں میں در محمد رہائش پذیر ہیں وہاں دو درجن سے زائد افراد اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔

یہ کہانی صرف تحصیل رتو ڈیرو کے گاؤں اللہ ڈنو سیلرو ہی کی نہیں بلکہ دیگر کئی دیہات بھی اس وبا کی لپیٹ میں ہیں۔ اس تحصیل میں قائم ایچ آئی وی سینٹر میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 1500 سے زائد ہو چکی ہے جس میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسے افراد جن میں ایڈز یا پھر ایچ آئی وی کی تصدیق ہو رہی ہے ان کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

آخر لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلاؤ کی وجوہات کیا ہیں؟

شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں ڈین آف کمیونٹی میڈیسن اور لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلاؤ کے پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر سعید شیخ کے مطابق لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلاؤ کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔

اُن کے بقول یہ دیکھنا ہو گا کہ لاڑکانہ میں واقعی کیسز کی تعداد پاکستان کے دیگر کسی علاقے سے زیادہ ہیں یا نہیں۔

ڈاکٹر سعید کے مطابق کسی وجہ سے اگر لاڑکانہ میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھا کر لوگوں کے زیادہ ٹیسٹ کیے گئے ہیں جو ہائی رسک پر تھے، ہو سکتا ہے کہ دوسرے علاقوں میں اس طرح کا کوئی ایکشن نہ لیا گیا ہو۔

ان کے بقول لاڑکانہ کے جن علاقوں سے ایڈز کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں وہاں سرنجز کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور کچھ کیسز ایسے بھی سامنے آئے ہیں جس میں دوسرے ممالک سے لوگوں کو ایڈز کی تشخیص کے بعد وطن واپس بھیجا گیا لیکن انہوں نے لاڑکانہ پہنچ کر کسی کو نہ بتایا۔

ڈاکٹر سعید کہتے ہیں اتائی ڈاکٹروں اور نیم حکیموں کے خلاف حکومتی ایکشن سے کسی حد تک خون کی غیر محفوظ منتقلی پر قابو پایا جا چکا ہے جب کہ حکومت نے کئی لیبارٹریز کو غیر محفوظ طریقے اور صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنے پر بند بھی کیا ہے۔

ڈین کمیونٹی میڈیسن شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے مطابق لاڑکانہ میں بچوں میں ایچ آئی وی کی شرح مسلسل بڑھنے کی ایک اور وجہ ورٹیکل ٹرانسفارمیشن آف ڈیزیز (ماؤں سے بچوں کو ایڈز کا مرض لاحق ہونا) ہے۔

اُن کے بقول لاعلمی اور تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے وائرس بچوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اب ہائی رسک آبادی سے آنے والے یا معتدل علامات ظاہر ہونے والے مریضوں کے بھی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جس سے ایسے مریضوں کی نشاندہی باآسانی ہوتی جا رہی ہے۔

کیا پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کے علاج کا ٹارگٹ پورا ہوا؟

پاکستان کے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کے مطابق ملک میں اس وقت 24 ہزار 208 مریض ایچ آئی وی ایڈز کا علاج کر رہے ہیں۔

این اے سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 90 ہزار لوگ ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ کرونا وبا کے باعث رواں برس پاکستان میں ایچ آئی وی کے مریضوں کے علاج کی تعداد بڑھانے کا ٹارگٹ بھی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔

این اے سی پی کی دستاویز کے مطابق 2010 سے 2019 تک ملک میں ایچ آئی وی انفیکشن کے کیسز کی تعداد میں 75 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب اقوامِ عالم 2030 تک ایڈز کے دنیا سے مکمل خاتمے کے لیے بلند نظر منصوبے بنا رہی ہے۔

'کرونا وبا کی وجہ سے ایڈز کے مرض پر توجہ کم ہوئی'

ڈاکٹر سعید شیخ کے خیال میں حکومتی توجہ اور فنڈز کرونا کی روک تھام اور اس کے کنٹرول پر ہے جس کی وجہ سے ایڈز پر توجہ کم ہوئی ہے۔

ان کے بقول یہ افسوس ناک ہے کہ کرونا کی وجہ سے ایچ آئی وی ایڈز کا مسئلہ پس منظر میں جا چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت بھی یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک بیماریوں کا دہرا وزن برداشت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب سندھ حکومت کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مینیجر نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ کرونا کی وجہ سے ایچ آئی وی ایڈز کے علاج میں کسی قسم کا کوئی تعطل آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ کرونا کے دوران بھی سرکاری اسپتالوں کے بند ہونے کے باوجود ایچ آئی وی ایڈز کے علاج کے مراکز میں مریضوں کو سروسز فراہم کی جاتی رہی۔ ان کے بقول اس مقصد کے لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تعاون سے مریضوں کو ایک ماہ کے بجائے تین تین ماہ کی ادویات فراہم کی جاتی رہیں تاکہ اُنہیں کرونا کی وبا کے دوران بار بار سینٹر آنے کی زحمت نہ کرنا پڑے۔

ڈاکٹر ثاقب علی شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی حکومت لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔

اُن کے بقول سال 2019 میں لاڑکانہ میں ایڈز کے کیسز سامنے آنے کے بعد رسپانس پلان ترتیب دیا تھا جس کے تحت انفیکشن کنٹرول پریکٹیسز اور آٹو سرنجز متعارف کرائی گئیں۔ اس بارے میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کے بعد جو چیزیں سامنے آئی تھیں اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جارہا ہے۔

ڈاکتر ثاقب علی شیخ کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں بڑے پیمانے پر اسکریننگ کی جا رہی ہے اور متاثرہ افراد کا فوری علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔

ان کے بقول ایڈز اسکریننگ کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن بھی ایڈز کنٹرول پروگرام کی مدد کر رہا ہے اور اتائی ڈاکٹروں پر نظر رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

کیا ایڈز پر مکمل کنٹرول ممکن ہے؟

ڈاکٹر سعید شیخ کا کہنا ہے کہ یہ مشکل ہے کہ ہم کسی مرض کا مکمل خاتمہ کر دیں لیکن اسے کنٹرول ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اور اس مرض کو ایک شخص سے دوسرے میں منتقلی سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں ہی اگر ایڈز کی تشخیص کر لی جائے تو مرض کو پھیلنے اور اسے بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے جب کہ خاص طور پر ہائی رسک آبادی میں بڑے پیمانے اسکریننگ کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر ثاقب علی شیخ نے بتایا کہ کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں کئی ہائی رسک آبادی ہے جہاں خواجہ سرا، سیکس ورکرز مقیم ہے، جنہیں علاج فراہم کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے کہ ان کا ایسے مرض کا شکار ہونے سے قبل ہی بچاؤ ممکن ہو سکے۔

ایڈز کنٹرول پروگرام مینیجر کے مطابق جلد ہی اسکریننگ کا نظام سندھ کے تمام اضلاع تک پھیلایا جا رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے بے نظیر آباد، شہداد پور، میرپور خاص میں نئے سینٹرز قائم کر کے وہاں اسکریننگ کو بڑھایا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG