جنوبی کوریا اور امریکہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت شمالی کوریا کی طرف سے جارحیت کی صورت میں جنوبی کوریا کے تحفظ کے لیے امریکی فوجیوں کو مزید کردار دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق جنوبی کوریا میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جیمز تھرمین اور جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جیانگ سیون جو نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سے کسی بھی مرحلے پر حملے کا جواب دینے میں امریکہ جنوبی کوریا کی مدد کر سکے گا۔
ماضی میں شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں جنوبی کوریا نے خود اس کا جواب دینا تھا اور صرف مکمل جنگ کی صورت ہی میں امریکہ اس میں شامل ہو سکتا تھا۔
اس معاہدے کے بعد شمالی کوریا کی طرف سے شدید ردعمل کا خدشہ ہے کیوں کہ پیانگ یانگ تواتر سے امریکہ اور جنوبی کوریا پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ اس پر حملے کی سازش کر رہے ہیں۔
2010ء میں جنوبی کوریا کے جنگی جہاز کے ڈوبنے اور اس ہی سال اس کے جزیرے پر گولہ باری میں دو شہری ہلاک ہونے کا الزام شمالی کوریا پر لگایا گیا تھا اور جنوبی کوریا نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اپنے ملک کے تحفظ کے لیے وہ کسی بھی ایسے حملہ کرنے والے کے خلاف کارروائی کرے گا۔
حکام کے مطابق جنوبی کوریا میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جیمز تھرمین اور جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جیانگ سیون جو نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سے کسی بھی مرحلے پر حملے کا جواب دینے میں امریکہ جنوبی کوریا کی مدد کر سکے گا۔
ماضی میں شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں جنوبی کوریا نے خود اس کا جواب دینا تھا اور صرف مکمل جنگ کی صورت ہی میں امریکہ اس میں شامل ہو سکتا تھا۔
اس معاہدے کے بعد شمالی کوریا کی طرف سے شدید ردعمل کا خدشہ ہے کیوں کہ پیانگ یانگ تواتر سے امریکہ اور جنوبی کوریا پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ اس پر حملے کی سازش کر رہے ہیں۔
2010ء میں جنوبی کوریا کے جنگی جہاز کے ڈوبنے اور اس ہی سال اس کے جزیرے پر گولہ باری میں دو شہری ہلاک ہونے کا الزام شمالی کوریا پر لگایا گیا تھا اور جنوبی کوریا نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اپنے ملک کے تحفظ کے لیے وہ کسی بھی ایسے حملہ کرنے والے کے خلاف کارروائی کرے گا۔