رسائی کے لنکس

امریکی سپریم کورٹ جج کی بچوں کے لیے کہانیاں


جسٹس سوٹومیئر بچوں کے لیے تحریر کردہ اپنی کتاب، 'جسٹ ہیلپ' کے ساتھ۔ 19 جنوری 2022ء
جسٹس سوٹومیئر بچوں کے لیے تحریر کردہ اپنی کتاب، 'جسٹ ہیلپ' کے ساتھ۔ 19 جنوری 2022ء

ویب ڈیسک-

جن معاشروں کی بنیاد میں انصاف اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ شامل ہو وہاں دوسروں کی حق تلفی ہو اس بات کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ جج سونیا سوٹومیئر بھی اسی بات پر یقین رکھتی ہیں اور اسے یقینی بنانے کے لیے اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔

ایسے ہی اگر کبھی ہمارے ہاتھ میں کسی قانون دان کی تحریر کردہ کتاب تھمائی جائے تو اسے کھولنے سے بھی پہلے ہم یہ طے کر چکے ہوں گے کہ یا تو یہ سوانح عمری ہے یا پھر اس میں قانون کے دقیق مسئلے زیر بحث لائے گئے ہوگے۔

اور یہ تاثر بھی کہ اگر یہ کتاب کسی بڑے جج نے لکھی ہو تو پھر اس میں یقیناً قانون اور انصاف سے متعلق مزید ثقیل موضوعات پر ہی لکھا گیا ہوگا۔

کہنے کو تو سونیا سوٹومیئر دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی سپریم کورٹ کی جج ہیں لیکن کتابیں وہ چھوٹے بچوں کے لیے لکھتی ہیں کیونکہ بچوں کی آج کی درست تربیت ملک کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔

اس ہفتے جسٹس سونیا سوٹومیئر کی بچوں کے لیے لکھی گئی تیسری کتاب شائع ہونے جا رہی ہے۔

"Just help! How to Build a Better World" میں وہ بچوں کو بتا رہی ہیں کہ وہ ہر رات خود سے یہ سوال کرتی ہیں کہ آج انہوں نے کس کی مدد کی؟

اس کتاب میں وہ بچوں کو ان مختلف طریقوں کے بارے میں بتاتی ہیں جن پر کام کرکے وہ اس دنیا کو رہنے کے لیے بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ وطن سے باہر تعینات امریکی فوجیوں کو چھوٹے چھوٹ تحائف بھیج کر، پلاسٹک کی تھیلیوں کو پھر سے قابل استعمال بنا کر، کسی پارک کی صفائی کرکےیا پھر اپنے کھلونے بچوں کے کسی ہسپتال میں تحفتاً دے کر۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے 67 سالہ جسٹس سونیا سوٹومیئر نے کہا کہ وہ بچوں کو سکھانا چاہتی ہیں کہ یہ سوچ ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہونا چاہیے کہ وہ اس دنیا کو رہنے کے لیے بہتر جگہ کیسے بنا سکتے ہیں۔

جسٹس سونیا سوٹومیئر کا کہنا ہے کہ اپنے خاندان اور دوستوں کی مدد تو اچھی بات ہے مگر وہ چاہتی ہیں کہ بچے سیکھیں کہ اپنے پڑوسیوں اور اپنی کمیونٹی کی مدد بھی کیسے کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے محض اچھی سوچ ہی نہیں عمل بھی ضروری ہے۔

اس کہانی کا مرکزی کردار خود سوٹومیئر ہی ہیں۔ کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کمسن سوٹومیئر سے ان کی والدہ روز یہ سوال کرتی ہیں کہ وہ آج کیسے مدد کرنا چاہیں گی اور پھر کہانی بتاتی ہے کہ ہر روز مرکزی کردار اور دوسرے بچے کس طرح مدد کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہے۔

سونیا سوٹومیئر اپنے ننھے قارئین کو بتاتی ہیں کہ وہ کس طرح نیو یارک شہر کے علاقے برونکس میں بچپن سے ہی اپنی والدہ کو نہ صرف بطور نرس بلکہ دوسرے طریقوں سے بھی آس پڑوس میں لوگوں کی مدد کرتے دیکھتی تھیں۔

سونیا سوٹومیئر کی والدہ کا انتقال گزشتہ برس ہی ہوا ہے، اور ان کے بقول، ان کی اگلی کہانی اسی کردار کے گرد تخلیق ہوگی۔

امریکہ میں بچوں کو اردو سکھانے والی 'الف ب پ' کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:24 0:00

ان کے بقول، ان کی والدہ کی موت سے انہیں دھچکہ پہنچا ہے مگر اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہوسکتا ہے کہ ان کی قابل تقلید زندگی کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے کہ کس طرح والدہ نے ان کی خدمت کے جذبے کو سنوارا اور نکھارا۔

اگلی کتاب تو والدہ کی زندگی کے بارے میں ہوگی مگر موجودہ کہانی کی کتاب میں بھی ایک کردار، جان جو بچوں کو ووٹ دینے کی اہمیت کے بارے میں بتاتا ہے، دراصل جان لوئس کو خراج تحسین پیش کرنے کی یہ کوشش ہے جن کی شخصیت نے سونیا سوٹومیئر کو بہت متاثر کیا۔

سال 2020 میں انتقال کر جانے والے جان لوئس متحرک امریکی سیاستدان تھے جن کا نام سیاہ فام حقوق اور امریکی سول رائٹس موومنٹ کی وجہ سے ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔ جان لوئس 1983 میں پہلی مرتبہ امریکی کانگریس میں منتخب ہوئے اور اس کے بعد 16 مرتبہ اسی سیٹ پر بار بار منتخب ہوتے رہے۔

سونیا سوٹومیئر اس سے پہلے بھی بچوں کی دو کتابیں تحریر کر چکی ہیں جن میں ایک ان کی اپنی زندگی کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ بچپن میں ہی ذیابطیس ہوجانے کی وجہ سے انہیں کیسے مضبوط انسان بننے میں مدد ملی۔

دوسری کتاب میں انہوں نے آٹیزم، ڈسلیکسیا اور ڈاؤن سنڈروم سے متاثرہ بچوں کی ہمت بندھانے کی کوشش کی ہے۔

کرونا وبا کی وجہ سے جسٹس سونیا سوٹومیئر سپریم کورٹ کی شنوائیوں میں بھی وڈیو کالز کے ذریعے شریک ہورہی ہیں اور اب کتاب کی رونمائی کی تقریبات میں بھی وہ یہی طریقہ اختیار کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسکول کے بچوں کے ساتھ بھی بات چیت کریں گی مگر جو خوشی بچوں کو گلے لگا کر ملتی ہے وہ حاصل کرنے سے محروم رہیں گی۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG