پاکستانی سوشل میڈیا پر پیر کے روز نمودار ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان پر اینکر عمران ریاض خان اور سمیع ابراہیم بطور تحقیر ان کے ریپ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر صارفین اس ویڈیو کی مذمت کے ساتھ ساتھ نہ صرف مطیع اللہ جان کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں بلکہ ریپ کے بطور مذاق اور ہنسی ٹھٹھے کے استعمال کی بھی مذمت کر رہے ہیں۔
اینکر اور صحافی ابصا کومل نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ مطیع اللہ جان کو جواب دینے کے بجائے دونوں اینکرز ذو معنی الزامات لگاتے رہے۔ انہوں نے لکھا کہ جیسے وہ ہنستے رہے اس سے ظاہر ہے کہ زیادتی جیسا حساس موضوع ان کے لیے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں یہ اینکر ٹی وی شو اور یوٹیوب پر اپنے لاکھوں سننے والوں کو کیا درس دیتے ہوں گے؟
صحافی اور رپورٹر رابعہ محمود نے لکھا کہ عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم اور جمیل فاروقی نے پاکستان کے سب سے اخلاق یافتہ اور بہادر صحافی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے "بیمار ذہن" پراپیگنڈا کا طریقۂ کار استعمال کیا یعنی مرد کا مرد کو ریپ کرنا یا جنسی تشدد کا الزام لگانا۔
صحافی مہرین زہرا ملک نے لکھا کہ مطیع کے ساتھ آرمی بیرک میں کچھ ہوا یا نہ بھی ہوا ہو، اس سے کسی کو بھی مطلب نہیں ہونا چاہیے اور اس کا مطیع کی صحافت سے کوئی بھی تعلق نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے مطیع اللہ جان پر سرعام بے ہودہ الزام لگانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ الزامات لگانے والے اسے ثابت کریں یا معافی مانگیں۔
جب کہ ٹوئٹر پر صارفین اس بات کی نشاندہی کرتے رہے کہ ریپ سے متعلق مذاق نہیں کیا جا سکتا۔ لکھاری سعدیہ احمد نے لکھا کہ ریپ کوئی مذاق نہیں۔ صارف شمع جونیجو نے لکھا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ اس ویڈیو میں ریپ کا لفظ ایک انسان کی تحقیر کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ماہین غنی نے لکھا کہ ان کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ کوئی بات نہیں جب بعض مرد ریپ سے متعلق مذاق کرتے ہیں۔ جب کہ ماریہ عامر نے لکھا کہ ان کے لیے یہ بات بہت حیران کن ہے کہ 2022 میں بھی یہ بتانا پڑے کہ ریپ سے متعلق مذاق نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ صحافی مطیع اللہ جان گزشتہ کچھ عرصے سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں اور اسلام آباد میں سیاست دانوں اور صحافت سے وابستہ شخصیات سے اپنے چینل کے لیے چلتے پھرتےانٹرویوز لیتے ہیں اور ان سے سخت سوالات کرتے ہیں۔
اینکر سمیع ابراہیم نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ "مطیع کے ساتھ گفتگو پر بہت خفگی ہے۔ لیکن مطیع کچھ عرصے سے صحافت کی آڑ میں صرف لوگوں کی بے عزتی کر رہا تھا۔ اور اس کے ماسٹر اس کی تصحیح کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایک بھاری دل کے ساتھ آج اسے جواب اسی کی زبان میں دینا پڑا۔ جو کہا وہ سچ ہے۔ لیکن کہنا نہیں چاہتا تھا۔"
عمران ریاض خان نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہوں نے مطیع اللہ جان پر سمیع ابراہیم کی جانب سے لگنے والے الزام کو محض دہرایا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جو لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں کیا انہوں نے ریحام خان کی کتاب، جاوید لطیف اور قادر پٹیل کے گھٹیا الزامات پر سوال اٹھایا؟َ
مطیع اللہ جان نے اپنے ٹوئٹر پر لوگوں کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے انہیں سوال کرنے سے روک نہیں سکتے۔ انہوں نے لکھا کہ ریکارڈ کی تصحیح کے لیے یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں اور اس سے الزام لگانے والے کے کردار کا پتا چلتا ہے۔