خطہ زمین پر اپنے وجود سے دہشت پھیلانے والے 'سانپ' کے نام سے ہی انسانوں مین ایک خوف کی جھرجھری دوڑ جاتی ہے، مگر زرعی علاقوں میں یہ سانپ انسانوں کے لئے ماحول دوست ہیں۔
خاصے بڑے زرعی رقبے والے صوبہٴسندھ کی دیہاتوں کا ایک بڑا حصہ کاشتکاری اور زراعت کے شعبے سے وابسطہ ہے، جہاں موجود سانپوں کی بہت سی نسلیں ماحول دوست ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ’سندھ اینٹی سنیک وینم‘ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ ’ہم عام سطح پر گاؤں میں بسنےوالے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ دیہاتوں میں پائے جانےوالے چھوٹے چھوٹے سانپ ماجول دوست ہیں جو ان کی فصلوں کو چھوٹے چھوٹے چوہوں سے تباہ ہونے سے بچاتے ہیں، انھیں جان سے نا ماریں، کیونکہ تمام سانپ زہریلے نہیں ہوتے‘۔
دیہی علاقوں میں اکثر کاشتکاری کی زمین پر چھوٹے چھوٹے چوہے فصل تباہ کر دیتے ہیں۔ ان چوہوں کو یہ سانپ کھاکر ان کی نسل کو کم کرنےکا ایک اچھا ذریعہ ہیں، کیونکہ ہم چوہے مار دوا فصل کے قریب نہیں لگا سکتے۔
ڈاکٹر نعیم کے مطابق، دنیا بھر میں پائی جانےوالی سانپوں کی نسلوں میں 75 فیصد سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ زہریلے سانپ کی اقسام صرف 25 فیصد ہیں جن کی پہچان کرنے اور احتیاط سے انسان ان سانپوں کے کاٹنے سے بچ سکتا ہے۔
کیا سانپ انسانوں کیلئے خطرہ نہیں ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نعیم قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے سانپوں کی اقسام میں 75 فیصد سانپ زہریلے نہیں ہوتے، یعنی ان کے کاٹنے سے انسان نہیں مرتا۔
ڈاکٹر نعیم کے مطابق دنیا بھر میں پائی جانےوالی سانپوں کی نسلوں میں زہریلے سانپ کی اقسام صرف 25 فیصد ہیں، جن کی پہچان کرنے اور احتیاط سے انسان ان سانپوں کے کاٹنے سے بچ سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان زہریلے سانپوں اور جو زہریلے نہیں ان میں فرق اور پہچان کرنا ضروری ہے جسکے لئے اسنیک وینم لیبارٹری سندھ کی جانب سے سندھ بھر کے گاؤں میں آگاہی پروگرام اور مہم شروع کی گئی ہیں جو بستی بستی جاکر ان سانپوں سے بچنے کی اصلاحات کےبارے مین آگاہی دے رہی ہین۔
گزشتہ کئی برس سے سانپوں پر تشخیص کرنےوالے ڈاکٹر نعیم نے بتایا کہ ’بہت سے افراد سانپ کے کاٹنے سے زہر پھیلنے سے زیادہ خوف اور ڈر سے ہی مرجاتے ہیں۔ جس کیلئے آگاہی ضروری ہے۔
آئندہ برسوں سندھ میں سانپ کے کاٹنے کے علاج ممکن ہوگا
سندھ کی محکمہ صحت کی جانب سے سندھ میں سانپ کے کاٹنے سے انسانی زندگی کے بچاؤ کیلئے سندھ لیبارٹری برائے اینٹی اسنیک وینم فارمولا تیار کیا گیا ہے جس سے آئندہ سالوں میں سندھ میں سانپ کے کانٹے کے مریضوں کا علاج ممکن ہوسکےگا۔ذرائع کے مطابق، اس فارمولے کو عام سطح پر متعارف کروانے کےبعد یہ عام سطح پر دستیاب ہوگا۔
ڈاکٹر نعیم قریشی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ دنیا میں سوائے اینٹی وینم اسنیک فارمولے کے کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔ اس سے قبل یہ ادوایات بیرون ممالک سے درآمد کیجاتی تھیں۔
دنیا بھر میں سانپ کے ڈسنے کے واقعات، پاکستان دوسرے نمبر پر
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 1999 ءکی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے دیگر ممالک میں سانپ کے ڈسنے کے واقعات میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، ان ممالک میں پہلا نمبر بھارت کا ہے۔
عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق، بھارت میں سالانہ ڈھائی لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان میں اسکی تعداد سالانہ 50 ہزار بتائی جاتی یے، جس کے نصف کیسز کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔