رسائی کے لنکس

انڈونیشیا کا ساحلی گاؤں ’ٹمبلسلوکو‘ کیوں ڈوب رہاہے؟


انڈونیشیا کی ایک ساحلی بستی کو سمندر آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ یہ دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک نیا روپ ہے۔ سائنس دان ایک عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ گلیشیئروں کے بڑے پیمانے پر پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو جائے گی جس سے کئی ساحلی آبادیاں، جزیرے اور حتی کہ کئی ملک ڈوب جائیں گے۔

انڈونیشیا کے اس گاؤں کا نام ٹمبلسلوکو ہے۔گاؤں کے کئی مکین علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ جو باقی رہ گئے ہیں ، وہ آہستہ آہستہ بلند ہوتے ہوئے پانی کے ساتھ رہنا اور جینا سیکھ رہے ہیں۔

اس گاؤں کے لوگ چاول کاشت کرتےہیں، جسے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر پانی کی سطح بلند ہونے سے اب وہاں چاول کے کھیتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی کشتیاں بھی تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔

سلطان اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کی عمر 49 سال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہر گزرتا دن یاد بنتا جا رہا ہے۔ پانی کی سطح اونچی ہو رہی ہے۔ اب کچھ کرنے کا دائرہ سکڑ رہا ہے۔پانی کی لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں۔

ٹمبلسلوکو کا شمار ایسے علاقوں میں کیا جاتا ہے جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہے ہیں۔ تاہم نمبلسلوکو کے معاملے میں مقامی آبادی کا بھی ایک کردار ہے۔ اس علاقے میں وسیع پیمانے پر مینگروز کے جنگلات موجود تھے، جسے 1990 کے عشرے میں مقامی لوگوں نے کاٹ دیا تھا۔ یہ جنگلات زمین کو پانی اور کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔

انڈونیشیا کی ساحلی بستی ٹمبلسلوکو تقریباً 20 سینٹی میٹر تک پانی میں ڈوب چکا ہے اور پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
انڈونیشیا کی ساحلی بستی ٹمبلسلوکو تقریباً 20 سینٹی میٹر تک پانی میں ڈوب چکا ہے اور پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

پاکستان میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مینگروز کے وسیع جنگلات موجود ہیں۔ صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں تقریباً 6 لاکھ ہیکڑ رقبے پر مینگروز کے جنگلات ہیں جنہیں دنیا میں مینگروز کا سب سے بڑا جنگل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہاں بھی ان جنگلات کو کٹائی کے خدشات لاحق ہیں۔

انڈونیشیا کی ڈیپونیگرور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینی نوگروہو سوگیانٹو کہتے ہیں کہ ٹمبلسلوکو اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پانچ کلومیٹر تک سمندر کا پانی پھیل چکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی تباہی ہے جو ہماری نظروں کے سامنے آہستہ آہستہ ہماری جانب بڑٖھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹمبلسلوکو کے علاقے میں پانی کی سطح 20 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے اونچی ہو رہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں 20 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے یہ ساحلی علاقہ سمندر میں غرق ہو رہا ہے۔ یہ رفتار 2010 کے مقابلے میں دو گنا ہے۔

سمندر کی سطح بلند ہونے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے ہوئے درجہ حرارت نے سمندروں کی سطح اونچی ہونے کی رفتار میں دو چند اضافہ کر دیا ہے۔

گاؤں والوں نے آنے جانے کے لیے لکڑی کے تختوں سے ایک راستہ تعمیر کیا ہے۔
گاؤں والوں نے آنے جانے کے لیے لکڑی کے تختوں سے ایک راستہ تعمیر کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی یہی رفتار رہی تو 2050 تک دنیا کے تمام سمندروں کی سطح میں ایک فٹ کا اضافہ ہو جائے گا جس سے بہت سے ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے۔

انڈونیشیا ہزاروں جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے جس کے بہت سے جزائر کو ڈوبنے کا خطرہ درپیش ہے۔ اس میں وہ جزیرہ بھی شامل ہے جس پر ملک کا دارالحکومت جکارتہ واقع ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جکارتہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو 2050 تک ڈوب سکتے ہیں۔ اس خطرے کے پیش نظر انڈونیشیا نے جکارتہ سے 800 کلومیٹر دور ’نوسانتارا‘ کے نام سے ایک نیا دارالحکومت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹمبلسلوکو کے سلطان اپنے گاؤں میں بچوں کا ایک سکول چلاتے ہیں۔ گاؤں میں مسلسل پانی بلند ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا سکول نسبتاً ایک اونچی جگہ پر منتقل کر دیا ہے۔ بستی کے باقی لوگ جن کے پاس متبادل جگہ نہیں ہے، انہوں نے اپنے گھروں میں لکڑی کے تختے لگا کر فرش اونچے کر لیے ہیں تاکہ ہر وقت پانی میں بھیگے رہنے سے محفوظ رہ سکیں۔

اسی گاؤں کے 54 سالہ سولارسو 2018 سے اب تک اپنے گھر کے فرش کو تین بار اونچا کر چکے ہیں۔ اب گھر کا فرش تقریباً ڈیڑھ میٹر اونچا ہو چکا ہے۔مگر اب ہوا یہ ہے کہ چھت نیچی ہو گئی ہے جس سے دوسری طرح کے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔

گاؤں کے قبرستان کو پانی سے بچانے کے لیے اس کے گرد لکڑی کے پشتے بنائے گئے ہیں۔
گاؤں کے قبرستان کو پانی سے بچانے کے لیے اس کے گرد لکڑی کے پشتے بنائے گئے ہیں۔

سولارسو اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم فرش کب تک اونچا کر سکتے ہیں۔ پانچ برس میں یہ گاؤں ختم ہو جائے گا۔

42 سالہ خویریا ایک خاتون خانہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راستوں پر ہر وقت پانی کھڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خریداری کرنے یا بچوں کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہاں سے نکل کر کہیں اور چلی جاؤں۔

ٹمبلسلوکو کے لیے اب ایک اور بڑا مسئلہ قبرستان کے سلسلے میں بھی ہے۔ قبروں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے گاؤں والوں نے قبرستان کے گرد پشتے بنا دیے ہیں اور وہاں تک آنے جانے کے لیے لکڑی کا ایک پل نما راستہ بنانے کے لیے وہ کام کر رہے ہیں۔

ایک طرف تو گاؤں پانی میں ڈوب رہا ہے تو دوسری جانب انہیں پینے کے لیے پانی نہیں مل رہا۔ گاؤں والوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں پائپ لائن کے ذریعے پینے کا پانی فراہم کیا جائے۔

ٹمبلسلوکو کے مکین نہیں جانتے کہ وہ گھروں کا فرش اونچا کر کر کے اور کتنا عرصہ اس گاؤں میں گزار سکیں گے۔ تاہم سلطان کو معلوم ہے کہ وہ اس گاؤں سے نکلنے والے آخری فرد ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک آخری بچہ اسکول آ رہا ہے، وہ ٹمبلسلوکو میں ہی رہیں گے۔

(اے ایف پی سے ماخوذ)

XS
SM
MD
LG