رسائی کے لنکس

بیلاروس کی ثالثی کے بعد باغی گروپ کا انخلا جاری؛ جنگجوؤں کو نئے کانٹریکٹس کی پیش کش


روس کی نجی ملیشیا ' ویگنر' گروپ کے سربراہ اور بیلاروس کے صدر الیگزنڈر لوکاشینکو کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد گروپ کے جنگجوؤں کی اپنے اڈوں کو واپسی جاری ہے جب کہ گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن بیلاروس روانہ ہو رہے ہیں۔

جنگجوؤں نے روس کے جنوبی شہر روستوف آن ڈان کا قبضہ بھی چھوڑ دیا ہے۔پریگوزن کا کہنا ہے کہ اُن کے جنگجو خون خرابے سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

روس اور ویگنر گروپ کے درمیان کیا معاہدہ ہوا؟

بیلاروس کی ثالثی میں ہفتے کو روس اور ویگنر گروپ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ماسکو نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جنگجو گروپ کے سربراہ اور ان کے فوجیوں پر کوئی مقدمہ نہیں چلائے گا۔

معاہدے کے تحت جنگجو گروپ کے سربراہ کو بیلاروس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جن جنگجوؤں نے 'مسلح بغاوت' میں حصہ نہیں لیا انہیں وزارتِ دفاع نئے کانٹریکٹس کی پیش کش کرے گی۔

معاہدے کے تحت یوگینی پریگوزن نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ یوکرین میں اپنے فیلڈ کیمپس میں واپس چلے جائیں جہاں وہ روسی افواج کے شانہ بشانہ یوکرین کے خلاف لڑائی میں شامل ہیں۔

یوگینی پریگوزن
یوگینی پریگوزن

خیال رہے کہ بیلاروس نے گزشتہ برس روس کی یوکرین میں جارحیت کی حمایت کی تھی اور اسے خطے میں روس کا بڑا حلیف سمجھا جاتا ہے۔

معاہدے کے بعد جنگجوؤں کی جانب سے قبضے میں لیے گئے روس کے جنوبی شہر روستوف آن ڈان سے انخلا کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

'مسلح بغاوت' اور ماسکو کی صورتِ حال

اس سے قبل ہفتے کو ویگنر گروپ کی نجی فوج کے جنگجوؤں نے ماسکو کی جانب پیش قدمی جاری رکھی تھی اور راستے میں پڑنے والے شہر روستوف آن ڈان پر قبضہ کر لیا تھا جو ماسکو سے 1100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

مسلح بغاوت کے پیشِ نظر روسی فوج نے ماسکو میں سیکیورٹی سخت کر دی تھی اور شہر کے مختلف مقامات پر چیک پوائنٹس قائم کر دی گئی تھیں۔ شہر کے جنوبی حصے میں آرمرڈ گاڑیاں اور اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔

صورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر کریملن نے یوکرین جنگ میں شامل تین ہزار چیچن جنگجوؤں کو بھی طلب کر لیا تھا۔ روسی فوج نے ماسکو کی جانب ویگنر گروپ کی پیش قدمی روکنے کے لیے اہم شاہراہوں کے کچھ حصوں کو بھی کھود ڈالا تھا۔

یوگینی پریگوزن نے دعویٰ کیا ہےکہ معاہدے سے قبل جنگجو ماسکو سے صرف 200 کلو میٹر کی دُوری پر تھے لیکن صرف اس وجہ سے کہ روسیوں کا خون نہ بہے، وہ پیچھے ہٹنے پر تیار ہو گئے۔

ویگنر گروپ نے بغاوت کیوں کی تھی؟

جنگجو گروپ کا مطالبہ تھا کہ روسی وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو کو برطرف کیا جائے۔ گزشتہ 16 ماہ سے جاری یوکرین جنگ کے دوران پریگوزن کے سربراہ روس کی فوجی قیادت پر تنقید کرتے رہے ہیں جن میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران شدت آگئی تھی۔

جمعے کو یوگینی پریگوزن نے الزام عائد کیا تھا کہ روسی وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو کے ماتحت روسی فوج نے ویگنر گروپ کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جن میں بڑی تعداد میں جنگجوؤں کی جانیں گئی ہیں۔

روس کی وزارتِ دفاع نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

ماہرین کے مطابق اگر پوٹن وزیرِ دفاع کو برطرف کرنے پر راضی ہو جاتے تو یہ صدر کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہوتا۔ پوٹن نے بغاوت کے بعد اپنے خطاب میں پریگوزن کو پیٹھ پر چھرا گونپنے والا غدار قرار دیا ہے۔

ویگنر کی مسلح بغاوت کی بظاہر دوسری بڑی وجہ وزارتِ دفاع کی یہ شرط ہے کہ نجی سیکیورٹی کمپنیاں یکم جولائی تک وزارتِ دفاع کے ساتھ نئے کانٹریکٹ پر دستخط کریں جس کی صدر پوٹن نے بھی حمایت کی تھی۔ تاہم ویگنر گروپ کے سربراہ نے اسے رد کیا تھا۔

پوٹن کا امتحان

پوٹن کے سابقہ حلیف یوگینی پریگوزن کی سربراہی میں شروع کی جانے والی اس بغاوت کو پوٹن کے 23سالہ دورِ اقتدار کا سب سے کڑا امتحان سمجھا جا رہا ہے۔

ایک آڈیو پیغام میں پریگوزن نے اعلان کیا کہ ان کے جنگجو کسی خونریزی سے بچنے کے لیے واپس اپنے اڈوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔

قبل ازیں کریملن سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا تھا کہ روس کی سالمیت خطرے میں ہے۔

پوٹن نے ویگنر کو 'غدار' قرار دیتے ہوئے اسے سزا دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا جب کہ گروپ کے سربراہ نے ماسکو کی فوجی قیادت کو گرانے کا عہد کیا تھا۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG