جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی نے جمعہ کو سندھ کے نئے گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ نے گورنر ہاؤس کراچی میں ان سے اپنے عہدے کا حلف لیا ۔
سعید الزماں صدیقی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، چیف جسٹس آف پاکستان رہنے کے علاوہ سن 2008 میں مسلم لیگ نواز کے صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔
حلف برداری کی تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ ، صوبائی وزراء، اسپیکرسندھ اسمبلی اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی تاہم 14سال تک گورنرر ہنے والے ڈاکٹر عشرت العباد خان اس تقریب میں شریک نہیں ہوئے اور جمعہ کو الصبح کراچی سے دبئی روانہ ہوگئے۔
جاتے جاتے صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا اور شہریوں سے معافی بھی مانگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ معافی چاہتے ہیں۔
طویل العمری اور بیماری
روایتی طور پر گورنر اور وزیراعلیٰ حلف برداری کے فوری بعد بانی پاکستان کے مزار پر جاتے اور حاضری دیتے ہیں لیکن موجودہ گورنر ضیف العمری کی وجہ سے مزار کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے ، بیمار اور لاغر بھی ہیں اس لئے مزار قائد پر نہیں جا سکے جس کے سبب بہت سے حلقوں میں ان کی بیماری اور طویل العمری زیر بحث آگئی ہے۔
گورنر سندھ کی عمر تقریباً اسی سال ہے جبکہ کچھ مہینوں پہلے ہی ضیف العمری کے سبب سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے تبدیل کر دیا گیا تھاحالانکہ انہیں چلنے پھرنے میں کوئی دقت درپیش نہیں تھی اور وہ اب تک ایکٹیو ہیں اور ہر جگہ آتے جاتے ہیں۔
سعید الزماں صدیقی کی اس عمر میں تقرری کے موضوع پر وفاقی حکومت کو بہت سے سخت سوالات کا سامنا ہے تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح نواز لیگ نے سندھ صوبے میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کو اس سےپورا پورا فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔
سابق گورنر سے متعلق بیان پر سیاسی بھونچال
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ابھی دبئی پہنچے ہی تھے کہ ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی نے انہیں’ دہشت گردوں کی آخری علامت‘ قرار دے کر سیاست میں تلاطم پیدا کردیا ۔یہ تلاطم کا ہی نتیجہ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ لندن کے راہنما ندیم نصرت کو اپنا موقف پیش کرنا پڑا ۔ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بھی انہی کے جیسا ایک بیان آیا۔
بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کو بھی نہال ہاشمی کے بیان پر وضاحت کرنا پڑی جس کا خود عشرت العباد خان کو دبئی پہنچتے ہی شکریہ ادا کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور سینٹر نہال ہاشمی نے بیان دیا تھا کہ ’’ 14 سال پہلے بانی ایم کیوایم کی جانب سے دہشت گرد تنظیم کا نمائندہ گورنر ہاؤس بھیجا گیا لیکن آج گورنر ہاؤس سے دہشت گردی کی آخری علامت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔‘‘
اس بیان پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان و لندن نےایک جیسا موقف اختیار کیا۔ 22 اگست کو الطاف حسین کی مبینہ اشتعال انگیز تقریر اور فاروق ستار کے الطاف حسین سے لاتعلقی کے اعلان کے بعدیہ پہلا موقع ہے جب متحدہ کے دونوں دھڑوں میں کسی ایشو پر ایک جیسا بیان سامنے آیا ہو۔
گورنر ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت میں سینٹر نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان مخالف لوگوں نے پرویز مشرف دور میں گورنر ہاؤس میں ڈیرہ ڈالا تھا لیکن آج جمہوریت اور آئین کی پاسداری کی صحیح علامت گورنر ہاؤس میں ہے، آج گورنر ہاؤس سے پاکستان کونہ ماننے والوں اور دہشت گردی کی آخری علامت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اونگزیب نے اس بیان کے جواب میں بروقت وفاقی حکومت کا موقف پیش کیا اور نہال ہاشمی کے اس بیان کو ان کا ذاتی موقف قرار دیا۔
سابق گورنر عشرت العباد نے بیان پر کہا کہ ’نہال کا کوئی اپنا ملال ہوگا، میرا تو اُن پر کوئی احسان نہیں، سنگین جرائم میں ملوث گورنر سے نہال اچھی طرح ملتے رہے۔ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی فوری وضاحت پرشکر گزار ہوں۔‘
ایم کیو ایم لندن کے رہنما ندیم نصرت نے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے نہایت غیر ذمہ دارانہ قرا دیا اور کہا کہ’ اقتدار میں آنے کے تین سال تک نہال ہاشمی کو یہ سب باتیں کیوں یاد نہیں آئیں۔‘
ندیم نصرت نے مسلم لیگ ن سے نہال ہاشمی سے وضاحت طلب کرنے اور ایکشن کا لینے کا مطالبہ بھی کیا جبکہ ترجمان ایم کیو ایم پاکستان امین الحق نے سوال کیا کہ جب ن لیگ قیادت نائن زیرو آتی تھی اس وقت نہال ہاشمی کو ایم کیو ایم دہشت گرد تنظیم نہیں لگتی تھی؟
سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی بھی نہال ہاشمی کے بیان پر حیران ہے۔ صوبائی وزیر منظور وسان کا کہنا ہے کہ ’’نہال ہاشمی کے بیان پر حیران ہوں، صدر اور وزیراعظم ن لیگ ہی کے ہیں اور گورنر کی تقرری صدر اور وزیراعظم کا ہی اختیار ہے، اگر عشرت العباد ریاست دشمن گورنر تھے تو ن لیگ نے انہیں گورنر کیسے رہنے دیا۔‘‘