رسائی کے لنکس

شہباز شریف کی قطر روانگی؛ کیا وزیرِ اعظم کا دورہ پاکستان کے لیے مددگار ثابت ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف آئندہ ہفتے قطر کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہوں گے۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا دوحہ کا یہ پہلا دورہ ہے، جسے بعض مبصرین سیاسی اور معاشی اشتراک کے حوالے سے بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

یہ دورۂ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب پاکستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ جس سے نکلنے کے لیے پاکستان دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے تصدیق کی ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد بن خلیفہ الثانی کی دعوت پر وزیرِ اعظم شہباز شریف رواں ماہ23 اور 24 اگست کو دوحہ کا دورہ کریں گے۔

اگرچہ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں اسلام آباد کو امید بندھی ہے کہ آئی ایم ایف معطل شدہ قرض کی ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کر دے گا تاہم اس کے باوجود پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کو پورا کرنے کے لیے چار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دوست ممالک سے چار ارب ڈالر حاصل کرے گا تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔

وزیرِ اعظم کے دورۂ قطر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ قطر پاکستان کے لیے ایک اقتصادی پیکج کا اعلان کرے گا۔امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قطر کی جانب سے معاشی مشکلات سے دو چار پاکستان کے لیے پیکج کا اعلان وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ دوحہ کے دوران ہوجائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ قطر کا دورے میں دو طرفہ امور خاص طور پر معاشی و اقتصادی تعاون کا فروغ ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

'دوحہ اسلام آباد کو مایوس نہیں کرے گا'

مبصرین کے مطابق شہباز شریف کا دورۂ قطر معاشی مشکلات کی شکار حکومت کے لیے کچھ آسانیاں ضرور لائے گا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی تعاون اور شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔

قطر میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ پیکج کی باتیں ہو رہی ہیں اور قوی امکان ہے کہ پاکستان نے 2019 میں جو رقم حاصل کی تھی، قطر ہماری مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس کی ادائیگی کو مزید مدت کے لیے بڑھا دے گا۔

یاد رہے کہ 2019 میں امیرِ قطر کے دورۂ اسلام آباد کے بعد دوحہ نے پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام کے لیے تین ارب قطری ریال فراہم کیے تھے۔

جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ پاکستان اور قطر کے درمیان تعاون محدود نہیں ہے بلکہ علاقائی، سفارتی، معاشی اور دفاعی سطح پر پھیلا ہوا ہے۔قطر میں دو لاکھ پاکستانی خدمات دے رہے ہیں جب کہ دو طرفہ تجارت ڈھائی ارب ڈالر تک ہے۔ پاکستان اور قطر کے درمیان تعلقات میں ایک اور اہم مشترک افغانستان کے حوالے سے کلیدی کردار ہے۔ دوحہ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے میزبانی کی تھی، جس کے نتیجے میں امن معاہدہ طے پاسکا۔

اخبار’قطر ٹریبیون‘ سے وابستہ دوحہ میں مقیم سینئر صحافی اشرف صدیقی کہتے ہیں کہ مشکل معاشی صورتِ حال کے باعث پاکستان دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے دوست ممالک نے اسلام آباد کو مایوس نہیں کیا ۔

'اصل مسئلہ معیشت نہیں سیاسی عدم استحکام ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی ہلچل اور دوست ممالک کا نام لے کر بیان بازی نے اعتماد سازی کو نقصان پہنچایا ہے۔

اشرف صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کے قطر کے ساتھ سیاسی اور دفاعی سطح پر دیرینہ طور پر تعلقات استوار ہیں اور فٹ بال کے عالمی مقابلے کے حفاظتی انتظامات کے لیے بھی پاکستان کے عسکری اداروں سے تعاون لیا جارہا ہے۔

توانائی کے شعبے میں تعاون

پاکستان توانائی بحران کا بھی شکار ہے اور خاص طور پر موسم سرما میں گیس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے درآمد کردہ ایل این جی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

قطر دنیا میں ایل این جی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کہ 2015 سے پاکستان کو ایل این جی گیس فراہم کررہا ہے۔ مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایل این جی گیس کی درآمد میں ہر سال اضافہ دیکھا ہو رہا ہے۔

جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں توانائی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور روس یوکرین تنازعے کے بعد یورپی ممالک ایل این جی گیس کے لیے قطر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ عالمی منڈی میں گیس کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں تاہم قطر کی طرف سے یہ عندیہ ملا ہے کہ پاکستان کے لیے بہتر دستیاب قیمت پر معاہدہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس بنیاد پر پاکستان امید کرسکتا ہے کہ شہباز شریف کے دورے کے دوران توانائی کے حوالے سے رعایتی نرخ یا ادھار پر ایل این جی دستیاب ہوسکے گی۔

جاوید حفیظ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ایل این جی کے حصول کے لیے قطر کے ساتھ 2016 اور 2019 میں معاہدے کیے اور اس حوالے سے حکومت و حزبِ اختلاف کے درمیان ہونے والے تنقید داخلی سیاسی حالات کے تحت تھی۔ جسے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔

خیال رہے کہ روس اور یوکرین تنازع نے ایک جانب تیل و کوئلے کی عالمی قیمتوں کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے، تو اس کا اثر گیس کی قیمتوں پر بھی پڑا۔ جو دنیا بھر میں اس وقت بلند سطح پر موجود ہیں۔

صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ توانائی کی قلت کے شکار پاکستان نے قطر کے ساتھ 2016 میں بہت مناسب قیمت پر ایل این جی حصول کا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن بعد میں آنے والی حکومت نے اس کے خلاف بیانات دیے۔جاوید حفیظ نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کے اس اقدام کو دوحہ میں ناپسندیدگی سے دیکھا گیا تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ خلیجی ممالک کے باہمی اختلافات کے دوران پاکستان نے قطر کی حمایت ترک نہیں کی جو کہ دوحہ بہت قدر سے دیکھتا ہے۔

جاوید حفیظ بھی سمجھتے ہیں کہ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے ماضی میں کچھ عرصہ کے لیے تعلقات خوشگوار نہیں رہے لیکن اس کے اثرات پاکستان قطر تعلقات پر نہیں پڑے۔

ان کے بقول قطر کی خارجہ پالیسی بہت متوازن ہے۔ اس کے ترکی اور ایران سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور حال ہی میں امیر قطر نے مصر کا دورہ کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ مثبت پہلو ہیں اور قطر کے پاکستان سے بھی بہتر سے بہتر تعلقات ہوں گے اور دونوں ملکوں کے تعلقات پورے خطے کے لیے مفید ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان گزشتہ برسوں میں پائے جانے والی کشیدگی میں اسلام آباد نے دوحہ کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔

پاکستان قطر کو کیا پیشکش کرسکتا ہے؟

اطلاعات کے مطابق حکومت نیویارک میں پاکستان کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کے 51 فی صد حصص اور قومی ایئر لائن پی آئی اے کے 49 فی صد حصص قطر کو پیشکش کرنے جا رہی ہے۔

اس فیصلے کی معلومات سے آگاہ حکومتی شخصیت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قطر کے دورے کی تیاریوں کے حوالے سے ایک اجلاس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سامنے قومی اداروں کا انتظام دوست ملک کو دینے کی تجاویز پر غور کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا انتظام بھی قطر کو دینے کی تجویز ہے۔

جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کو قطر ایئرویز کے زیرِ انتظام دینے کے حوالے سے ابھی قیاس آرائیاں ہیں اور اس ضمن میں دیکھنا ہوگا کہ دورے کے دوران کیا معاہدے طے پاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قطر کو ہوا بازی کی صنعت میں وسیع تجربہ حاصل ہے اور اس ضمن میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی جاسکتی ہے۔

ان کے بقول قطر ایئرویز کی پاکستان میں کافی پروازیں آتی ہیں اور حکومت اور عوام کی سطح پر تعلقات بڑھ رہے ہیں۔

’شریف خاندان کے قطر کے شاہی خاندان سے گہرے مراسم رہے ہیں‘

سابق سفیر جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ قطر اور پاکستان کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں جو کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دو طرفہ اور خطے کے تناظر میں اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان میں برسر اقتدار اتحادی حکومت کی سربراہی مسلم لیگ (ن) کر رہی ہے اور شریف خاندان کے قطر کے شاہی خاندان سے گہرے مراسم رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس اہم دورے کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون پر ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے، جس میں قابل ذکر توانائی اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔

جاوید حفیظ نے کہا کہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور قطر کے تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہوگی اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ خلیجی ممالک کو غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہے، تو قطر کو پاکستان میں زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔

سینئر صحافی اشرف صدیقی نے بتایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے دورۂ قطر میں پاکستان میں سرمایہ کاری اور اشتراک کے کچھ منصوبے بھی لارہے ہیں جس پر ابتدائی طور پر دونوں اطراف اتفاق رائے پایا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھی حکمتِ عملی ہے کیوں کہ قطر نے اپنی سرمایہ کاری کو بہت سے شعبوں اور ممالک میں پھیلا رکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قطر غذائی تحفظ کے لیے دیگر ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اور پاکستان قطر کی اس ضرورت کو مشترکہ شراکت داری سے پورا کرسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG