|
ویب ڈیسک — خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک چیک پوسٹ پر مبینہ دہشت گردوں کے حملے میں 12 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ بنوں کے علاقے مالی خیل میں منگل کو ایک چوکی پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کے دوران دہشت گردوں نے چیک پوسٹ میں اندر داخل ہونے کی کوشش کی جسے اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔
بیان کے مطابق دہشت گردوں نے بارود سے بھری ایک گاڑی چیک پوسٹ کی بیرونی دیوار سے ٹکرائی جس سے چوکی کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ اس چوکی کے ساتھ موود دیگر تنصیبات بھی اس دھماکے کی زد میں آئی ہیں جس سے نقصان کی اطلاعات ہیں۔
فوج نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں چھ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے خود کش حملے میں فوج کے 10 جب کہ فرٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔
فوج نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اس دھماکے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس خود کش حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں ضلع بنوں سمیت کئی اضلاع دہشت گردی کا شکار ہیں اور ان علاقوں میں عسکریت پسند حملے کرتے رہتے ہیں۔ اکثر ان حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا اس سے جڑے گروپ قبول کرتے رہے ہیں۔
دو دن قبل بھی افغانستان کی سرحد کے قریب فوج کے ایک قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی سرحدی ضلعے خیبر میں پیر کو فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ فوج کا یہ قافلہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کے بعد واپس اپنے اڈے کی جانب لوٹ رہا تھا جب اس کو نشانہ بنایا گیا۔ فوج نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔
پیر کو ہی بنوں میں پولیس کی ایک چوکی پر مسلح افراد نے حملہ کرکے سات اہلکاروں یرغمال بنا لیا تھا۔ ان یرغمال اہلکاروں کو مقامی جرگے نے مذاکرات کے بعد بدھ کو بازیاب کرایا ہے۔
پاکستان کے افغان سرحد سے منسلک صوبوں خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی سے منسلک عسکری گروہوں جب کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے حالیہ مہینوں میں اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے ’سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق رواں برس عسکری تنظیموں کے حملوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لگ بھگ 1100 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو اقوامِ متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے جب کہ بلوچستان میں سب سے بڑے عسکری گروہ سمجھے جانے والے 'بی ایل اے' کو امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
بی ایل اے نے گزشتہ ہفتے میں بلوچستان میں ہونے والے دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن میں ایک کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خود کش حملہ بھی شامل تھا جس میں 34 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستانی حکام مسلسل یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ البتہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
امریکہ کی حکومت کے ایک نگران ادارے ’اسپیشل انسپکٹر جنرل فور افغانستان ری کنسٹرکشن‘ (سیگار) کی رواں ماہ سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو مکمل طور پر ختم اور دہشت گردوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کی استعداد اور ایسا کرنے کا اقدام کر سکتے ہیں۔
سیگار نے رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کی کانگریس کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کے اخذ کردہ نتائج کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
آٹھ نومبر کو پیش کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے آٹھ تربیتی مراکز ہیں جہاں وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس عسکری تنظیم کے لیے افغان جنگجوؤں کا بھی انتظام کرتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان حالات میں اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے متنبہ کیا ہے کہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا اشتراک ’علاقائی خطرے‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔