رسائی کے لنکس

قومی اسمبلی سے سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل منظور: کیا تبدیل ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قومی اسمبلی نے سیکریٹ ایکٹ 1923 میں ترامیم کا بل منظور کرلیا ہے جس میں زمانۂ جنگ کے ساتھ زمانۂ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا۔ حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوع قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

بل کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہوگا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس کو ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرام درانی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزیرِ پارلیمانی امور مرتضٰی جاوید عباسی نے منگل کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔

وفاقی وزیر نے اسے ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا اس پر جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبد الاکبر چترالی نے اعتراض کیا کہ ضمنی ایجنڈے میں شامل بل منظور کیے جا رہے ہیں اور اس کی کاپی بھی نہیں دی جا رہی ہے۔

اس بل کے ذریعے سیکریٹ ایکٹ کے 1923 کے قانون میں مزید ترامیم کی گئی ہیں۔ترمیمی بل کے ذریعے خفیہ دستاویزات، اسلحہ، خفیہ ایجنسی کی تعریف بھی بدل دی گئی ہے۔

ممنوع مقامات میں دفاعی اداروں کے دفاتر بھی شامل

اس بل کے تحت ملٹری استعداد اور صلاحیت یا اسلحہ، گولہ بارود کی خرید و فروخت سے متعلق معاملات ، انٹیلی جنس ایجنسی کی تعریف میں آئی بی کے ساتھ آئی ایس آئی کو بھی شامل کرنے، ممنوعہ مقامات کی تعریف میں دفاعی اداروں کے دفاتر یا عمارت کے کسی بھی حصے کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس بل میں حالتِ امن میں بھی کسی علاقے، بری و بحری راستے کو ممنوع قرار دیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

ایکٹ کے تحت زمانۂ جنگ کے ساتھ زمانۂ امن کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔

بل کے مطابق حکومت کو کسی بھی اہم بنیادی ڈھانچے کو سرکاری اعلامیے کے ذریعے ممنوع علاقہ قرار دینے کا اختیار دینے کی تجویز ہے۔

ذرائع مواصلات میں بری اور بحری راستوں کے ساتھ فضائی راستے بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔

خفیہ ادارے کو بغیر وارنٹ چھاپہ مارنے کا اختیار حاصل

آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 بل میں ذیلی شق ٹو-اے کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہو گا۔

بل کے مطابق ملک دشمن سرگرمی میں ملوث کسی شخص سے متعلق معلومات رکھنے پر بھی سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔

بل کے تحت گرفتار کیے گئے شخص یا قبضے میں لیا گیا سامان خفیہ ادارے کے افسر، تحقیقاتی افسر یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو دینے کا پابند کرنے کی تجویز ہے۔

ایکٹ کے تحت تفتیشی افسر ایف آئی اے کا گریڈ 17 یا اس سے زائد کا افسر ہوگا۔

اس ایکٹ کے تحت مقدمات خصوصی عدالتوں میں سننے کی منظوری ہوگی۔

مقدمات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی جو 30 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

دفاعی مقاصد کے لیے زیرِ استعمال عارضی جگہیں بھی ممنوع

اس بل میں تینوں مسلح افواج کی جانب سے مختلف وار گیمز، مشقوں، تربیت، افواج کی نقل و حرکت، ان کیمرا بریفنگ کے لیے عارضی طور پر استعمال کیے جانے والے مقامات کو بھی ممنوع مقام قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک محفوظ معلومات یا اثاثوں کے حامل کسی بھی مقام، اراضی، عمارت یا جائیداد کو ممنوع مقام قرار دینے کی تجویز ہے۔

بل کے مطابق پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی بھی مقام تک رسائی ممنوع ہوگی۔

کوئی بھی ایسا مقام جس تک رسائی یا اس کا استعمال پاکستان کے مفادات یا تحفظ کے خلاف ہو اسے ممنوع مقام قرار دیا جا سکے گا۔

کوئی بھی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ، ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی قوت، ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، اداروں یا گروپ کے لیے کام کرے گا اسے دشمن سمجھا جائے گا۔

خفیہ دستاویزات کی نئی تعریف

بل کے تحت تحریر شدہ، غیر تحریر شدہ، آن لائن، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل مسودے کو بھی دستاویزات میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ممنوعہ قرار دیے گئے مواد، نیٹ ورک، مقام تک براہِ راست اور الیکٹرانک رسائی غیر قانونی ہو گی۔

کسی بھی ممنوع قرار دیے گئے مقام، انفارمیشن سسٹم، نیٹ ورک یا ڈیٹا تک براہِ راست، الیکٹرانک یا ورچوئل رسائی کو غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

ممنوع قرار دیے گئے مقام تک رسائی، اس میں داخلہ، حملہ کرنا، تباہی پھیلانا جرم تصور کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ ممنوع قرار دیے گئے سرکاری پاس ورڈ، ڈیوائس کا حصول اور ریکارڈ شائع کرنا جرم ہوگا۔

قانون کے مطابق ممنوع قرار دیے گئے مقام کا اسکیچ بنانا، پلان یا ماڈل تیار کرنا جس سے دشمن کو فائدہ پہنچ سکے، قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا۔

بل کے مطابق فورسز کی استعداد، اسلحہ و آلات، مینٹی ننس و اسٹوریج کی معلومات تک رسائی جرم ہو گی۔

فورسز کی استعداد، اسلحہ یا آلات کی ایجاد، تحقیق، ترقی، پیداوار، مینٹی ننس، آپریشن یا اسٹوریج سے متعلق معلومات حاصل کرنا یا کسی کو بتانا جرم تصور کیا جائے گا۔

خفیہ اہل کاروں کی شناخت ظاہر کرنا جرم ہو گا

قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کے سیکشن سکس-اے میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کے مفاد یا دفاع، امن عامہ یا کسی خفیہ عہدیدار اور کسی بھی خفیہ ایجنسی کے رکن، خبر دینے والے یا ذرائع کی شناخت افشا کرنا قابلِ تعزیر جرم ہوگا۔

خفیہ اداروں سے منسلک اہل کاروں، مخبر یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے والے کو مجرم تصور کیا جائے گا اور شناخت ظاہر کرنے والے کو تین سال تک قید یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔

قانون کے مطابق شناخت ظاہر کرنے والے کی معاونت کرنے، سازش کرنے یا شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے کو بھی یہی سزا دی جا سکے گی۔

نئی منظور ہونے والی ترامیم کے مطابق پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی غیر ملکی ایجنٹ کے پتے پر جانے یا اس سے منسلک ہونے کو دشمن سے رابطہ سمجھا جائے گا۔

پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی شخص سے دشمن یا فارن ایجنٹ کا نام یا پتا ملنے کی صورت میں بھی اسے دشمن سے رابطے میں سمجھا جائے گا۔

منظور ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی ایجنٹ سے تعلق کی بنیاد پر تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

'طاقت کا غلط استعمال بڑھے گا'

پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس بل کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارے ہاں اس قسم کی پاورز ملنے کے بعد ان کے غلط استعمال کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ پہلے جب یہ ترامیم نہیں ہوئی تھیں تو اس وقت ہی ان پاورز کا غلط استعمال ہو رہا تھا اور اب تو ان ترامیم کے ساتھ طاقت کے غلط استعمال کا امکان ہے۔"

احمد بلال محبوب کے بقول ان ترامیم کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں لوگوں کو کس طرح کنٹرول کیا جائے گا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس ایکٹ میں بعض ترامیم ایسی ہیں جن کے ذریعے لگ رہا ہے کہ پہلے ہی جو برا وقت ہے اس میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ غیر ملکیوں کے ساتھ روابط پر فارن ایجنٹ ہونے کا الزام اور اس میں سزائیں بہت عجیب سی بات ہے.

ان کا کہنا تھا کہ ابھی پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن اور ای پرائیویسی ایکٹ بھی لائے جا رہے ہیں جس کے ذریعے سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کر لیا جائے گا۔

احمد بلال نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی قانون سازی کی گئی جس کے ذریعے اس وقت کے مخالفین کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں انہی قوانین کے زد میں وہ خود آئے۔

نئے قوانین کتنے فائدہ مند؟

سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات اس قانون سازی کا باعث ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو جو کمی محسوس ہو رہی ہے انہیں پورا کرنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت میں موجود افراد اس قانون سازی کو مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں اور بعض افراد اس قانون سازی کو اپنے لیے مسائل سمجھ رہے ہیں۔

تسنیم نورانی نے کہا کہ حکومت کے پاس پہلے ہی بہت سے قوانین موجود ہیں، ایسے میں نئے قوانین لانا خرابی کا باعث بنتا ہے۔

تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس قانون سازی کے ذریعے سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ لہذٰا دیکھنا یہ ہو گا کہ اس بل سے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG