رسائی کے لنکس

چوہے میں انسانی دماغ کی پیوندکاری کا کامیاب تجربہ، دماغی امراض کے علاج میں مدد مل سکتی ہے


دماغ کے خلیے برقی رو اور برقی سرکٹ کے ذریعے دوسرے خلیوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس نظام میں خرابی کئی پیچیدہ دماغی اور نفسیاتی امراض اور معذوری کا سبب بن جای ہے۔
دماغ کے خلیے برقی رو اور برقی سرکٹ کے ذریعے دوسرے خلیوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس نظام میں خرابی کئی پیچیدہ دماغی اور نفسیاتی امراض اور معذوری کا سبب بن جای ہے۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انسانی دماغ کے خلیوں کی چوہوں کے دماغوں میں پیوندکاری کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن چوہوں کے دماغ میں انسانی دماغ کے خلیے نصب کیے گئے تھے، انہوں نے جڑ پکڑ لی ہے اور وہ پھیل رہے ہیں۔ چھ ماہ کے بعد جب ان کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کچھ چوہوں کے دماغ کی آدھی جگہ انسانی دماغ کے خلیات لے چکے ہیں۔

چوہوں کی کھوپڑی میں انسانی دماغ اگانے کا مقصد انہیں کسی سائنس فکشن کردار کی طرح انسانوں کی طرح سوچ بچار کرنے کے قابل بنانا نہیں بلکہ ان دماغی بیماریوں کا مطالعہ کرنا، اسباب جاننا اور ان کا علاج ڈھونڈنا ہےجسےانسانی کھوپڑی کے اندر سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔اس میں آٹزم اور شیزوفیرنیا جیسے امراض شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ دنیا کی سب سے پیچیدہ اور پر اسرار چیز ہے۔ اس کی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو صرف انسانوں کو ہی لگتی ہیں۔ انسان ابھی تک انسانی دماغ کے کئی حصوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکا ہے، انہیں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی کھوپڑی سے باہر ان کی نشوونما کی جائے اور ان کا مطالعہ کیا جائے۔

ڈاکٹر سرجیوپاسکا نے، جواس اہم اور پیچیدہ تحقیق میں شامل ہیں، حال ہی میں سائنسی جریدے نیچر میں اپنی ٹحقیق کے کچھ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں نے امید کی نئی راہیں روشن کی ہیں۔

طب کے شعبے میں بیماریوں اور ان کے علاج سے متعلق لیبارٹری تجربات کے دوران جانوروں کا استعمال عام ہے۔ یہ تجربات ایسے جانوروں پر کیے جاتے ہیں جن کا ردعمل انسان سے ملتا جلتا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ تر ایک خاص نسل کے چوہے استعمال ہوتے ہیں۔

انسانی دماغ کےاس سکین میں سرخ رنگ ان حصوں کو اجاگر کر رہا ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔
انسانی دماغ کےاس سکین میں سرخ رنگ ان حصوں کو اجاگر کر رہا ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سرجیو پاسکا نے بھی انسانی دماغ کے خلیوں کی افزائش کے لیے چوہوں کا ہی انتخاب کیا۔ لیکن اس مقصد کے لیے چوہوں کے ان بچوں کو چنا گیا جن کی عمر صرف دو یا تین دن تھی۔ کیونکہ اس عمر میں چوہے کا دماغ بن رہا ہوتا ہےاور کسی اور دماغ کے خلیوں کو وہاں پیوند کاری اور افزائش کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے انسانی دماغ کے اصل خلیوں کی بجائے اس سے گہری مشباہت رکھنے والے خلیے استمال کیے گئے جنہیں سائنس کی اصطلاح میں آرگنائڈز کہا جاتا ہے۔ یہ خلیے اصل خلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہی کی طرح کام کرتے ہیں۔

دماغ کے آرگنائڈز بنانے کے لیےا سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انسانی جلد کے خلیات کو سٹم سیلز میں تبدیل کیا اور پھر ان کی مدد سے کئی قسم کے دماغی خلیے تیار کیے۔

انسانی دماغ کی سب سے بیرونی تہہ، یاداشت، سوچنے، سیکھنے، استدلال اور جذبات جیسی چیزوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس مطالعے کا تعلق بھی دماغ کی بیرونی تہہ سے تھا جس میں خرابی سے آٹزم اور شیزو فیرنیا جیسے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔

دماغ کے خلیے نیوران کی مدد سے دوسرے خلیوں کے ساتھ ایک برقی تعلق پیدا کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کے درمیان کئی برقی سرکٹ بن جاتے ہیں۔ یہ عمل کمپیوٹر کے پراسیسر جیسا ہوتا ہے جو پورے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔

اسٹنفورڈ اسکول آف میڈیسن کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر اور اس تحقیق میں شامل پروفیسر پاسکا کہتے ہیں کہ انسانی دماغ پر تحقیق سے متعلق یہ اب تک کا سب سے منفرد تجربہ ہے جس میں ایک چوہے کی کھوپڑی میں انسانی دماغ کا سب سے جدید برقی نظام تشکیل دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق میں چوہے کے دماغ کے دونوں حصوں کی جانب آرگنائڈز کی پیوندکاری کی گئی۔ ایک جانب صحت مند شخص کے آرگنائڈز لگائے گئے جب کہ دوسری جانب کے آرگنائڈز کا تعلق ایک ایسے شخص سے تھا جسے دماغی امراض لاحق تھے۔

تقریباً چھ مہینے کے بعد جب چوہوں کے دماغ میں نیوران کے الیکٹرک سرکٹس کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ صحت مند شخص کے آرگنائڈز نے دوسرے خلیوں کے ساتھ زیادہ برقی سرکٹ بنائے تھے جب کہ دماغی امراض میں مبتلا شخص کے آرگنائڈز کے دوسرے خلیوں کے ساتھ نیوران کے برقی رابطے محدود تھے۔ یاد رہے کہ دماغ جسم کے مختلف حصوں کو پیغامات اور احکامات بھیجنے کے لیے دماغ میں پیدا ہونے والی برقی لہروں کو استعمال کرتا ہے۔

ییل یونیورسٹی میں دماغی امراض پر کام کرنے والی ڈاکٹر فلورا اویکارینو کہتی ہیں کہ اس تحقیق سے دماغی امراض کا سبب سمجھنے اور اس کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق بعض دائمی اور پیچیدہ امراض کا سبب انسانی خلیوں کی خرابی ہوتی ہے۔ اگر خلیے یا جین کی خرابی پیدائشی ہو تو مرض یا معذوری پہلی سانس سے ہی مقدر بن جاتی ہے ، جب کہ بعض پیچیدہ امراض وقت کے ساتھ خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خرابی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اگر یہ خرابی دور کر دی جائے تو مرض بھی ختم ہو جاتا ہے۔

سائنس دانوں کے کئی گروپ اسی پہلو پر تحقیق کر رہے ہیں جسے جین تھیراپی کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دائمی اور پیچیدہ امراض میں مبتلا شخص کے خلیے لے کر، اور ان کی خرابی دور کر کے اسے دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جائے تو وہ متاثرہ خلیوں کو درست کر دے گا جس سے مرض کا مستقل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجربات کامیاب رہے توطبی شعبے میں انقلاب آ جائے گا۔

اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG