رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کا موازنہ سزائے موت سے کیا


فائل
فائل

متعدد مسلم خواتین اور تنظیموں نے طلاق ثلاثہ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔ ادھر، معروف عالم دین مولانا عبد الحمید نعمانی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے جسٹس کورئین کی رائے کی تائید کی اور کہا کہ ”کسی بھی مسلک میں طلاق ثلاثہ کو اچھا نہیں کہا گیا ہے“

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے ایک نشست میں تین طلاقوں کے جواز سے متعلق سماعت کے دوران، طلاق ثلاثہ کا موازنہ سزائے موت سے کیا۔

انھوں نے اسے ایک گھناؤنا عمل قرار دیا اور کہا کہ اس کے باوجود اس کی اجازت ہے۔ انھوں نے یہ سوال بھی کیا ’’آیا ایسا عمل قانونی ہو سکتا ہے‘‘۔

ان کا یہ رد عمل کانگریس کے سینئر لیڈر اور ایڈووکیٹ سلمان خورشید کی اس رائے کے بعد آیا کہ ایک نشست میں تین طلاق دینا گناہ ہے۔ لیکن، قانونی ہے۔ عدالت نے سلمان خورشید کو اس معاملے میں اپنا معاون مقرر کیا ہے۔

جسٹس کورئین جوزف نے اپنے تبصرے میں طلاق ثلاثہ کو ازدواجی رشتہ ختم کرنے کا بدترین اور ناپسندیدہ عمل قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ پھر بھی ایک مکتب فکر اسے قانونی قرار دیتا ہے۔

معروف عالم دین اور اسلامی شریعت کے ماہر مولانا عبد الحمید نعمانی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے جسٹس کورئین کی رائے کی تائید کی اور کہا کہ ”کسی بھی مسلک میں طلاق ثلاثہ کو اچھا نہیں کہا گیا ہے“۔ ان کے مطابق، ”اسی لیے اسے طلاق مغلظہ قرار دیا گیا ہے“۔ تاہم، انھوں نے بھی کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک نشست میں تین طلاقیں دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

خیال رہے کہ پانچ ججوں کا آئینی بینچ طلاق ثلاثہ اور حلالہ پر جمعرات کے روز سے یومیہ سماعت کر رہا ہے۔ یہ پانچوں جج پانچ مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس جے ایس کھیہر سکھ ہیں۔ جسٹس کورئین جوزف عیسائی، جسٹس آر ایف نریمن پارسی، جسٹس یو یو للت ہندو اور جسٹس عبد النذیر مسلمان ہیں۔

متعدد مسلم خواتین اور تنظیموں نے طلاق ثلاثہ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امتیازی اور خواتین کے وقار کے منافی ہے۔ حکومت اسے عورتوں کے حقوق کے خلاف قرار دے کر اس کی مخالفت کر رہی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیة علمائے ہند کی جانب سے عدالت میں اس کا دفاع کیا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG