رسائی کے لنکس

حج: دنیا بھر سے 15 لاکھ عازمین کی حجاز مقدسہ آمد


حج اسلام پر ایمان کے پانچ ستون میں سے ایک ہے، جس کی ادائگی ہر صاحبِ استعداد مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار فرض ہے

پانچ روزہ مناسکِ حج ادا کرنے کے لیے دنیا بھر سے 15 لاکھ سے زائد عازمین حج سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔

حج اسلام پر ایمان کے پانچ ستون میں سے ایک ہے، جس کی ادائگی ہر صاحبِ استعداد مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار فرض ہے۔
سکیورٹی تشویش کے عذر پر، ایران اس سال حج کی ادائگی کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ گذشتہ برس حج کے دوران منیٰ میں بھگدڑ کے واقعے میں کم از کم 2000حاجی ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے کئی سو ایرانی تھے۔ ایران نے الزام لگایا ہے کہ یہ سعودی ’’نا اہلی‘‘ تھی، جس بنا پر صحت اور حفاظت پر مامور اہل کاروں نے منیٰ واقع میں ہلاک و زخمیوں کی مناسب نگہداشت نہیں کی۔

یہ پہلی بار نہیں کہ ایران نے حج کا بائیکاٹ کیا ہو. لیکن، یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب سعودی عرب کے ساتھ ایران کا تناؤ انتہائی بڑھا ہوا ہے، جس کی وجہ شام اور یمن کے تنازعات ہیں، جہاں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مخالف فریق کے حامی ہیں۔

سعودی عرب نے گذشتہ جنوری میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے، جس سے قبل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے کو نذر آتش کیا تھا، جو سعودی عرب کی جانب سے معروف شیعہ عالمِ دین شیخ نمر النمر کو پھانسی دیے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران، دونوں دارالحکومتوں کے درمیان باتوں کی لے دے ترش انداز اختیار کرگئی ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ اِی نے اسلام کے مقدس ترین مقامات کے انتظام کے سعودی حق کو چیلنج کیا ہے، اور الزام لگایا ہے کہ گذشتہ برس کی بھگدڑ کا واقع سعودی شاہی خاندان کی جانب سے ’’قتل‘‘ کے مترادف تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے، ایک معروف سعودی عالم دین نے کہا ہے کہ ایران کے رہنما ’’مسلمان نہیں‘‘ ہیں۔

حفاظت کے معاملے پر تشویش

یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ گذشتہ سال جیسا المناک واقع دوبارہ پیش نہ آئے، سعودی عرب نے حفاظت اور سکیورٹی کے وسیع تر انتظامات کیے ہیں۔

روزنامہ ’عرب نیوز‘ کی اطلاع کے مطابق، حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران صحت اور تحفظ سے متعلق 1000 تربیتی مشقیں کی ہیں؛ جب کہ مکہ، مدینہ، عرفات اور منیٰ کے مقامات پر 26000 طبی، تکنیکی اور دیگر سرکاری اہل کاروں کو تعینات کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی 175 ایمبولنس فراہم کیے گئے ہیں۔ حکمت عملی کے حامل مقامات پر 1000 کیمرے نصب کیے گئے ہیں، تاکہ ارکان حج کی ادائگی کا مستقل جائزہ لیا جائے۔

تمام حاجیوں کے بازو میں کَڑے پہنائے جائیں گے، جن پر پانی اثر نہیں کرے گا، جِن میں طبی ریکارڈ سمیت ذاتی معلومات درج ہوگی، جس کا مقصد یہ ہے کہ بیماری یا زخمی ہونے کی صورت میں اُنھیں فوری طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

تاہم، صحت کا معاملہ ہی ایسا نہیں جس پر تشویش لاحق ہوسکتی ہے۔ جولائی کے اوائل میں، تین خودکش بم حملہ آوروں نے سعودی عرب کے علیحدہ مقامات کو نشانہ بنایا تھا، جس میں مدینہ کا مقدس شہر بھی شامل ہے جہاں پیغمبر اسلام کا متبرک روضہ ہے۔ کسی گروپ نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جس کے لیے سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یہ داعش کے شدت پسند گروپ کی کارستانی لگتی ہے۔ اِن بم حملوں نے سعودی شہریوں کے علاوہ حج کے دوران آنے والے عازمین کو تحفظ فراہم کرنے کی سعودی حکومت کی صلاحیت کے بارے میں سوال کھڑے کیے ہیں۔

اس کوشش میں کہ بھیڑ پر کنٹرول کس طرح کیا جائے، حکام نے ہر ملک کے ویزے کی تعداد محدود کر دی ہے۔ تمام ’’اللہ کے مہمانوں‘‘ کے لیے لازم ہے کہ وہ اجازت نامے ساتھ رکھیں؛ جب کہ پولیس نے سکیورٹی کی خصوصی چوکیاں قائم کی ہیں تاکہ غیر قانونی عازمین حج کو مقدس مقامات کے اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ حکام نے مروجہ ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزائیں دینے کا عہد کیا ہے۔

خدا کی راہ میں سفر

حج کے دوران، عازمین حج تمام رُکن اور واجب مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، جن میں طوافِ کعبہ شامل ہے، جس کے لیے مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہٴ خدا تعمیر کیا تھا۔ وہ آبِ زمزم کے چشمے کا بابرکت پانی پیتے ہیں، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں شفایابی کی تاثیر ہے، اور شیطان کو علامتی کنکر مارے جاتے ہیں۔

توفیق حامد ’پوٹومک انسٹی ٹیوٹ فور پالیسی اسٹڈیز‘ میں سینئر فیلو ہیں۔ بقول اُن کے ’’ارکان ِحج میں غریبوں کو کھانہ کھلانا بھی شامل ہے۔ کئی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بار حج کرنے پر اللہ تعالیٰ اُن کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، اور وہ ایک نوزائدہ بچے کی مانند معصوم ہوجاتے ہیں۔‘‘

حج کے بعد عید الاضحیٰ آتی ہے، جو اِس بار پیر کے روز ہوگی، جو اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے ایک اہم دِن ہوتا ہے، جب مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جنھوں نے اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرنی چاہی تھی۔ دنیا بھر کے مسلمان عید پر جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں، جن میں گائے، بکری، بھیڑ شامل ہے، جو اُن کے مذہبی اعتقاد کی مظہر ہے۔

XS
SM
MD
LG