پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں مناسک حج کی ادائیگی کے دوران بھگدڑ مچنے سے 1100 حاجی ہلاک ہوئے۔
اس بات کی تصدیق پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق چوہدری نے پیر کو رات گئے ایک نیوز کانفرنس میں کی۔
تاہم سعودی حکام کی طرف سے تاحال اس پر کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جب کہ سعودی وزارت صحت کی طرف سے جاری کیے گئے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 769 بتائی گئی ہے جبکہ 934 افراد زخمی ہوئے۔
طارق چوہدری کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے منیٰ میں ہلاک ہونے والے افراد کی 1100 تصاویر سفارت کاروں کو دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر سعودی سفارت خانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انہون نے کہا کہ "سعودی عہدیداروں کی طرف سے یہ تعداد سرکاری طور پر بتائی گئی ہے"۔
دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ میں کہا کہ سعودی حکام نے ہلاک ہونے والوں کی 1090 تصاویر جاری کی ہیں۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں آیا سعودی حکام کی طرف سے دوسرے ممالک کے سفارت خانوں کو بھی یہ تصاویر فراہم کی گئی ہیں یا نہیں۔
سعودی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ حادثہ گزشتہ جمعرات کو حج کے رکن رمی جمرات جسے عام طور پر شیطان کو کنکریاں مارنا بھی کہتے ہیں، کی ادائیگی کے دوران اس وقت پیش آیا جب ایک بڑی تعداد میں مخالف سمتوں سے آنے والے حاجی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔
گزشتہ 25 سالوں کے دوران مکہ میں مناسک حج کی ادائیگی کی دوران پیش آنے والی یہ مہلک ترین واقعہ ہے۔
ہلاک ہونے والے دیگر حجاج میں ایران کے مطابق اس کے 228 شہری بھی شامل ہیں اور اس نے سعودی عرب کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرے اور مسلمانوں اور متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ ایران کو اس واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیئے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
اس سال دنیا بھر سے بیس لاکھ مسلمانوں نے حج کی ادائیگی کے لیے مکہ میں موجود تھے اور ان میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی تھی جبکہ بتایا جاتا ہے کہ ہلاک ہونے والے پاکستانی حاجیوں کی تعداد 44 ہو گئی ہے۔